ای تھری ممالک کا اقدام ’بلا جواز،غیرقانونی، افسوسناک‘، ایران
29 اگست 2025برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرنے کا اقدام جمعرات کو ایسے وقت شروع کیا ہے جب دو ماہ قبل اسرائیل اور امریکہ نے ایران پر بمباری کی تھی، جس کے باعث کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
’ای تھری ممالک‘ یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے اسنیپ بیک فعال نہ کیا تو وہ اکتوبر کے وسط تک ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اختیار کھو دیں گے، جو 2015 کے ایٹمی معاہدے کے تحت ختم کی گئی تھیں۔
ایران کا ردعمل
ایران نے اس اقدام کو ’’غیر قانونی اور افسوسناک‘‘ قرار دیا لیکن کہا کہ یورپ کے ساتھ سفارتکاری جاری رہے گی۔ ایران نے ان تین یورپی طاقتوں پر الزام لگایا کہ وہ سفارتکاری کو نقصان پہنچا رہی ہیں، اور کہا کہ تہران ان کے دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا۔
ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے ای تھری کے فیصلے کو ’’بلا جواز، غیر قانونی اور کسی بھی قانونی بنیاد سے عاری‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران ’’اپنے قومی حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب جواب دے گا‘‘ لیکن امید ظاہر کی کہ یورپی ممالک آنے والے دنوں میں اپنے ’’اس غلط اقدام کو درست کریں گے‘‘۔
البتہ عراقچی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالاس کو اپنے خط میں کہا کہ ایران منصفانہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ دوسرے فریق سنجیدگی اور نیک نیتی کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو کامیابی کے امکانات کو نقصان پہنچائیں۔
ای تھری ممالک نے کیا کہا؟
فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں نوئل بیرو نے کہا کہ یہ فیصلہ سفارتکاری کے خاتمے کی علامت نہیں ہے۔ ان کے جرمن ہم منصب یوہان واڈے فیہول نے ایران پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ مکمل تعاون کرے اور آئندہ ایک ماہ کے اندر امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرے۔
خیال رہے کہ اس معاہدے کے تحت، جو اکتوبر میں ختم ہو رہا ہے، کوئی بھی فریق اگر سمجھے کہ ایران معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو’’اسنیپ بیک‘‘ یعنی پابندیاں بحال کر سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جمعہ کو ای تھری کی درخواست پر بند کمرہ اجلاس میں اس معاملے پر غور کرے گی۔
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خیرمقدم
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے ای تھری کے اقدام کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ واشنگٹن تہران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ لیکن ایران نے کہا کہ بات چیت اسی صورت ہوگی جب امریکہ مذاکرات کے دوران فوجی حملوں سے باز رہنے کی ضمانت دے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا اور اسے یکطرفہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد معاہدہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھا دی۔
اسرائیل نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے اسے تہران کی ایٹمی سرگرمیوں کے خلاف ’’اہم قدم‘‘ قرار دیا۔
دوسری جانب روس اور چین نے ایک مسودہ قرارداد پیش کیا ہے جس میں 2015 کے ایٹمی معاہدے کو مزید چھ ماہ کے لیے بڑھانے اور مذاکرات کی بحالی پر زور دیا گیا ہے، تاہم اس پر ووٹنگ کی درخواست نہیں کی گئی۔
اقدام کے نتائج
ای تھری نے یہ قدم ایران پر الزام لگانے کے بعد اٹھایا کہ وہ 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس کا مقصد ایران کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو محدود کرنا تھا، بدلے میں اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔
ایران کے اندر اس نئے پابندیوں کے خطرے نے مایوسی پیدا کر دی ہے، جہاں رہنما سخت گیر مؤقف رکھنے والوں اور سفارتکاری کی حمایت کرنے والوں کے درمیان تقسیم کا شکار ہیں۔
ایران نے یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر لیا ہے، جو 90 فیصد ہتھیاری معیار کے قریب ہے، اور اسرائیل کے 13 جون کے حملوں سے پہلے اس کے پاس کئی بم بنانے کے لیے کافی ذخیرہ موجود تھا، جیسا کہ آئی اے ای اے نے بتایا۔ اگرچہ ہتھیار تیار کرنے میں وقت لگے گا، لیکن ایجنسی کہتی ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ ایران کا پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے۔
اگر یہ پابندیاں نافذ ہوئیں تو اس کا مطلب 2015 سے قبل کی جامع اقوام متحدہ کی پابندیوں کی واپسی ہوگی، جن میں روایتی ہتھیاروں پر پابندی، بیلسٹک میزائل کی ترقی پر قدغن اور اثاثوں کو منجمد کرنا شامل ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین