اہم پاکستانی طالبان کمانڈر عصمت اللہ شاہین ہلاک
25 فروری 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر 25 فروری کو شمالی وزیرستان میں میران شاہ کے قریب واقع دیہات درگاہ منڈی میں عصمت اللہ شاہین کو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا۔ تحریک طالبان کا یہ اعلیٰ کمانڈر پاکستانی طالبان میں متنازعہ حیثیت رکھتا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ عصمت اللہ شاہین تحریک طالبان پاکستان کے عبوری سربراہ کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھا چکا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس جنگجو کے سر کی قیمت دس ملین روپے رکھی ہوئی تھی۔
عصمت اللہ شاہین کی ہلاکت کے کچھ گھنٹوں بعد ہی پشاور میں ایرانی قونصلیٹ کے قریب کیے گئے ایک حملے میں پیرا ملٹری فورس کے دو سپاہی ہلاک جبکہ دیگر دس زخمی ہو گئے۔ ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ پیر کے دن رونما ہونے والے ان دونوں واقعات میں کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ حکام کے بقول جنگجو ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن جب اسے راستے میں روکنے کی کوشش کی گئی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے مبصرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ عصمت اللہ شاہین کی ہلاکت سے طالبان اور پاکستانی حکومت کے مابین تعطل کے شکار امن مذاکرات پر کوئی اثرات نہیں پڑیں گے۔ میران شاہ میں ایک سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’نامعلوم مسلح افراد نے عصمت اللہ شاہین کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ وہ اور اس کے تین ساتھی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘‘ تاہم شاہین کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا ہے کہ فائرنگ کے اس واقعے میں دو مزید افراد شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مقامی سکیورٹی افسران کے مطابق حملہ آور بعد ازاں مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر فرار ہو گئے۔
عصمت اللہ شاہین دو برس سے زائد عرصے تک طالبان کی سپریم کونسل کا سربراہ بھی رہ چکا تھا۔ تاہم شاہین کے قریبی ساتھیوں کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ متعدد طالبان کمانڈروں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے گزشتہ دسمبر میں اسے اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ عصمت اللہ شاہین اس وقت منظر عام پر آیا تھا، جب اس نے 2009ء میں کراچی میں شیعہ زائرین پر کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں 43 افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان میں ہونے والے متعدد حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شریک رہا تھا۔