اوباما کا مقابلہ کون کرے گا، دوڑ شروع
2 جنوری 2012ماہرین کے مطابق ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ اتنے زیادہ امیدواروں میں سے یہ نہ بتایا جا سکتا ہو کہ کس کے باقاعدہ صدارتی امیدوار بننے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ دسمبر کے اوائل میں نیوٹ گنگرچ تھے، جنہیں یہ یقین تھا کہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے اُنہی کو امیدوار نامزد کیا جائے گا۔ امریکی ٹی وی چینل ABC سے باتیں کرتے ہوئے گنگرچ نے کہا تھا:''مَیں امیدوار بنوں گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا تھا کہ رائے عامہ کے جائزوں کی روشنی میں اُنہیں یہ ایک مسلمہ بات لگتی ہے۔ تیسری مرتبہ شادی کے بندھن میں بندھنے والے گنگرچ ایک ذہین اور شاندار منصوبہ ساز تصور کیے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک ایسے شخص بھی، جس کے بارے میں کبھی بھی کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اُنہیں پارٹی کے کنزرویٹو دھڑے کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ ہی روز بعد گنگرچ نے دیکھا کہ کیسے اُن کے حریفوں کی جانب سے شروع کی گئی ایک منفی مہم رنگ لائی اور آئیووا میں اُن کے لیے رائے دہندگان کی حمایت پھر سے نیچے چلی گئی۔
ری پبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں گنگرچ کے جانشین بنے، پینسلوینیا کے چھپن سالہ سابق سینیٹر رِک سینٹورم۔ کچھ عرصہ پہلے تک اُن کے آگے آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے اور پوری امریکی قوم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ابھی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ تاہم کٹر قدامت پسند سینٹورم نے، جو اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کے شدید مخالف ہیں، آئیووا میں بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے، جس کا اُنہیں فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ کے وسط میں واقع ریاست آئیووا کے ری پبلکن ووٹرز قدامت پسند اَقدار کے زبردست حامی ہیں۔ اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے سینٹورم نے کہا تھا:’’امریکہ کا اصولی نصب العین اس بات کی ضمانت دینا ہے کہ ہر شخص آزاد ہے۔‘‘ تاہم سینٹورم کے مطابق یہ نصب العین جتنا زیادہ آج کل خطرے میں ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔ سینٹورم کے مطابق ’چند لوگوں کے ایک گروپ کا، جس کی قیادت اوباما کر رہے ہیں، یہ خیال ہے کہ امریکہ کی طاقت اُس کی حکومت میں مضمر ہے نہ کہ اُس کے عوام میں‘۔
1972ء سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ سب سے پہلے تقریباً تین ملین کی آبادی والی امریکی ریاست آئیووا کے ووٹروں کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ کامیابی کے امکانات والے امیدوار کا انتخاب کریں۔ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں سب سے پہلے پچپن سالہ خاتون سیاستدان مشیل باخمن کی پوزیشن مضبوط نظر آتی تھی۔ پھر اکسٹھ سالہ رِک پیری کا نام سامنے آنے لگا۔ تاہم جو نام شروع سے اب تک مسلسل لیا جا رہا ہے، وہ ہے، ریاست میساچُوسٹس کے چونسٹھ سالہ سابق گورنر مِٹ رومنی کا، جنہیں لبرل خیال کیا جاتا ہے اور جو اپنی پارٹی میں زیادہ حمایت کے حصول کے لیے خود کو قدامت پسند ظاہر کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ پہلے بھی صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر چکے ہیں، اِس لیے اُنہیں اِس کا کچھ تجربہ بھی ہے۔ ٹی وی شوز میں وہ اپنی پارٹی کے حریفوں کی بجائے صدر باراک اوباما کو ہدف بناتے ہیں۔ رومنی کو ایسی شخصیت تصور کیا جا رہا ہے، جو اوباما کو واقعی شکست سے دوچار کر سکتے ہیں اور ووٹروں کی نظر میں یہی چیز اہمیت کی حامل ہے۔
آئیووا میں کچھ دیگر امیدوار بھی ہیں، جن کی کامیابی کے امکانات تو زیادہ نہیں ہیں لیکن رائے عامہ کے جائزوں میں اُنہیں خاصی حمایت بھی ملی ہے۔ ریاست ٹیکساس کے 76 سالہ عوامی نمائندے رَون پال کے نظریات روایتی قدامت پسند ووٹروں کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ مثلاً پال عراق اور افغانستان کی جنگوں کے شدید مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر محتاط طرزِ عمل اختیار کرے۔ وہ کہتے ہیں:''ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا غور سے جائزہ لینا ہو گا اور یہ جانچنا ہو گا کہ آیا ہم واقعی معاشی اعتبار سے اس قابل ہیں کہ 130 ملکوں میں 900 فوجی اڈوں پر اپنی موجودگی برقرار رکھ سکیں۔‘‘
تیسری مرتبہ صدارتی امیداوار بننے کی کوششیں کرنے والے پال کے خیال میں ان اڈوں کی تعداد کم کی جانی چاہیے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک