انگلینڈ: پرچم لہرانے کی مہم باعث فخر یا تشویش کا سبب؟
27 اگست 2025پرچم لہرانے کی یہ مہم سیاسی طور پر تناؤ والے ایک ایسے ماحول میں شروع ہوئی جب برطانیہ میں ''مائیگریشن‘‘ بحث کا مرکزی موضوع ہے۔ 'یوگوو‘ کے ماہانہ سروے کے مطابق جون کے آخر سے عوام کی سب سے بڑی تشویش معیشت نہیں بلکہ امیگریشن بن گئی ہے۔
لندن کے ایک چوراہے، جسے انگلش پرچم کے رنگوں سے رنگا گیا تھا، پر کھڑی بارٹینڈر بتیس سالہ لیوی مک کارتھی نے کہا، ''یہ ہمارا پرچم ہے، ہمیں فخر کے ساتھ اسے لہرانے کا حق ہے۔ دنیا کے ہر ملک کو یہی حق حاصل ہے، تو مسئلہ کیا ہے؟‘‘
برطانیہ میں قومی پرچم عام طور پر سرکاری عمارتوں پر لہرائے جاتے ہیں، اور کھیلوں، شاہی یا فوجی تقریبات کو چھوڑ کر گلی کوچوں میں یہ منظر شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں پرچموں کے نمودار ہونے کے ساتھ ساتھ ان ہوٹلوں کے باہر مظاہرے بھی شروع ہو گئے ہیں، جہاں پناہ گزین ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہ مہم سوشل میڈیا سے تقویت پا رہی ہے اور بظاہر برمنگھم کی ایک تنظیم ''ویولی واریئرز‘‘ کے ذریعہ شروع ہوئی، جو اب مختلف گروہوں کو مزید پرچم لگانے پر اکسا رہی ہے۔
یہ گروپ اپنے فنڈ ریزنگ پیج پر خود کو ''پرفخر انگریز‘‘ کہتا ہے اور لکھتا ہے کہ وہ اپنی تاریخ، آزادیوں اور کامیابیوں پر فخر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے پرچم لگانے کی وجوہات کی مزید وضاحت نہیں پیش کی۔
سن انیس سو ستر کی دہائی میں یونین جیک کو انتہائی دائیں بازو کی جماعت ''نیشنل فرنٹ‘‘ نے اختیار کیا اور سفید فام بالادستی کی علامت کے طور پر فروغ دیا ، جبکہ سینٹ جارج کا صلیب انگلش فٹ بال ہلڑ بازوں اور انتہا پسند گروہوں نے اپنایا۔
اسی پس منظر میں بعض لوگ پرچم کو حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں، لیکن تارکینِ وطن برادریوں اور نسلی طور پر متنوع پس منظر رکھنے والے افراد کو خدشہ ہے کہ وہ اس کے ذریعے نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔
باون سالہ اسٹینلی اورونسائے، جو نائجیریا سے تعلق رکھنے والے ہوٹل ورکر ہیں اور آئیل آف ڈاگز میں رہتے ہیں، نے کہا کہ لوگوں کو ہجرت پالیسی پر اپنی رائے دینے کا حق ہے، بشرطیکہ وہ قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ تاہم انہوں نے بھی بے چینی کا اظہار کیا۔ ''تشویش یہ ہے کہ اگر یہ بڑھا تو کوئی اور رخ اختیار کر سکتا ہے۔ جب قوم پرستی کا لہجہ بدل جائے تو یہ فکر انگیز ہے۔‘‘
پچیس سالہ جیسن نے کہا کہ پرچم ''انگلش ثقافت واپس لانے‘‘ کی کوشش ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت سے زیادہ دوسروں کی ثقافت نظر آ رہی ہے۔‘‘
مظاہروں کی لہر
حالیہ ہفتوں میں ہوٹلوں کے باہر پناہ گزینوں کے خلاف مظاہرے اس وقت بھڑک اٹھے جب لندن کے شمال میں ایک ہوٹل میں رہائش پذیر ایتھوپین پناہ گزین پر جنسی حملے کا الزام لگا۔ وہ اس الزام سے انکار کرتا ہے۔
یہ پچھلی گرمیوں میں ہونے والے فسادات کی یاد دلاتا ہے، جب ٹیلر سوئفٹ سے منسوب ایک ڈانس ایونٹ میں تین کمسن لڑکیوں کے قتل کے بعد برطانیہ کے کئی شہروں میں پناہ گزینوں اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے اس وقت کہا تھا کہ تشدد ''انتہائی دائیں بازو کے غنڈوں‘‘ کی کارستانی ہے۔
جب ان سے پرچم لگانے کی تحریک کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کے ترجمان نے کہا کہ وزیرِاعظم پرچموں کو قومی ورثے اور اقدار کی علامت سمجھتے ہیں، مگر تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ لوگ انہیں تنازعہ کھڑا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
کچھ مقامی کونسلوں نے حفاظتی وجوہات کے باعث پرچم ہٹا دیے ہیں۔ ٹاور ہیم لیٹس کونسل نے کہا کہ نجی جائیداد پر پرچم لگائے جا سکتے ہیں لیکن اگر انہیں کونسل کی عمارت پر لگایا گیا تو ہٹا دیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا،''ہمیں علم ہے کہ کچھ لوگ جو پرچم لگا رہے ہیں وہ ہمارے علاقے سے تعلق نہیں رکھتے اور باہر سے آکر تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سیاسی ردعمل
پرچم لگانے کی مہم کو، نائجل فراج سمیت، کئی سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہے۔ سابق بریگزٹ مہم کار، نائجل فراج کی جماعت ریفارم یوکے رائے عامہ کے سروے میں سرفہرست ہے۔
کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما رابرٹ جینرک نے پرچم ہٹانے والی کونسلوں کو ''برطانیہ مخالف کونسلیں‘‘ قرار دیا اور ایکس پر لکھا، ''ہمیں یونین جیک کے تحت ایک ملک ہونا چاہیے۔‘‘
امریکی ارب پتی ایلون مسک نے بھی اپنے پلیٹ فارم ایکس پر انگلینڈ کے پرچم کی تصویر پوسٹ کی۔
آئیل آف ڈاگز میں، جو مشرقی لندن میں کینری وارف کے قریب واقع ہے، زیادہ تر پرچم بریٹانیا ہوٹل کے قریب نظر آئے، جو پناہ گزینوں کے لیے مخصوص حکومتی ہوٹل ہے اور مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔
چھبیس سالہ بھارتی نژاد شریا جوشی، جو اس علاقے میں رہتی ہیں، نے کہا کہ وہ اب بھی ان پرچموں کے اصل مقصد کے بارے میں غیر یقینی ہیں۔
انہوں نے کہا، ''اگر یہ تارکینِ وطن برادری کے لیے کوئی پیغام ہے یا اس نوعیت کی کوئی بات ہے، تو یہ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ