انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری: مودی حکومت سے جواب طلبی
29 اگست 2018حقوق انسانی کے کارکنوں کی گرفتاری کو اظہارِ رائے کی آزادی کو کچلنے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر نکتہ چینی کرنے والوں کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے آج بدھ انتیس اگست کو اس بارے میں حکم دیا، ’’اختلاف رائے جمہوریت میں سیفٹی والو کی طرح ہے۔ اگر اختلاف رائے کی اجازت نہ دی گئی، تو پریشر کُکر پھٹ بھی سکتا ہے۔‘‘
حقوق انسانی کے پانچ معروف کارکنوں وکیل سدھا بھردواج، بائیں بازو کے نظریہ ساز اور شاعر وراورا راؤ، ارون فریرا، ورنن گونزالیز اورگوتم نولکھا کو مہاراشٹر پولیس نے کل منگل کے روز ملک کے مختلف حصوں میں چھاپے مار کر گرفتار کر لیا تھا۔ ان گرفتاریوں کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت تقریباً دو درجن تنظیموں کے علاوہ وکلاء، اساتذہ، مزدوروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں اور ملک کی کئی اہم شخصیات نے بھی اس اقدام پر کڑی تنقید کی تھی۔
معروف مؤرخ رومیلا تھاپر، دیوکی جین، پربھات پٹنائک،ستیش دیش پانڈے اور مایا دارو والا نے آج بدھ کو سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر کے چیف جسٹس دیپک مشرا سے درخواست کی تھی کہ معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اس پر فوری سماعت کی جائے۔ اس درخواست میں ان کارکنوں کی فوری رہائی کی اپیل اور ان گرفتاریوں کی آزادانہ چھان بین کرانے کی بھی درخواست کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے بدھ کی شام اپنے ایک حکم میں کہا کہ اس معاملے کی اگلی سماعت تک حقوق انسانی کے ان پانچوں کارکنوں کو ان کے گھر پر نظر بند رکھا جائے۔ اس مقدمے کی اگلی سماعت اب چھ ستمبر کو ہو گی۔
دوسری طرف حقوق انسانی کے ان پانچ سرکردہ کارکنوں کی گرفتاری پر بھارت کے قومی انسانی حقوق کمیشن نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاست مہاراشٹر کی حکومت سے چار ہفتے کے اندر جواب طلب کر لیا ہے۔ کمیشن نے صوبائی ڈائریکٹر جنرل پولیس سے یہ بھی پوچھا ہے کہ آخر ان لوگوں کو کیوں گرفتار کیا گیا۔
مہاراشٹر میں پونے شہر کے نزدیک گزشتہ سال31 دسمبر کو بھیماکورے گاؤں میں پیش آئے تشدد کے واقعات میں ایک شخص کی موت ہو گئی تھی۔ ان واقعات کی تفتیش کرنے والی پونے پولیس نے کل منگل کو دہلی، ممبئی، حیدر آباد اور رانچی میں ایک ساتھ چھاپے مار کر ان پانچوں کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ ان کارکنوں کے بائیں بازو کے انتہا پسندوں، جنہیں نکسلی کہا جاتا ہے، سے قریبی تعلقات ہیں۔ پونے پولیس کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کے دوران ایک ملزم کے گھر سے ایک ایسا خط بھی ملا، جس میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل جیسی منصوبہ بندی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس خط میں مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے ان گرفتاریوں کو مودی حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کی کارروائی قرار دیا ہے۔ دلت رہنما اور بہوجن سماج وادی پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’بی جے پی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ دانشور وزیر اعظم مودی کے قتل کی سازش کر رہے تھے۔ یہ مجھے گجرات میں ہوئے فرضی تصادم کے ان واقعات کی یاد دلاتا ہے، جب مودی کی جان کو خطر ہ بتاکر کئی لوگوں کا پولیس کے ساتھ ’انکاؤنٹر‘ کر دیا گیا تھا۔‘‘
بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری سدھاکر ریڈی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جمہوری اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف ان کارروائیوں نے مودی حکومت کے فسطائی کردار کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔‘‘ انہوں نے گرفتار شدگان کے خلاف جھوٹے اور من گھڑت الزامات فوراً واپس لینے اور انہیں فوراً رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
سدھاکر ریڈی کا مزید کہنا تھا، ’’یہ گرفتاریاں دراصل شدت پسند ہندو تنظیم سناتن سنستھا کے ان کارکنوں کی حالیہ گرفتاری سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے کی گئی ہیں، جنہیں مسلم مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ اور ہندوؤں کے تہوار گنیش چترتھی کے دوران سلسلہ وار بم دھماکوں کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا،‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ آکار پٹیل نے حقوق انسانی کے کارکنوں کی اس گرفتاری کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’یہ کارکن بھارت کے سب سے کمزور اور پسماندہ طبقات کے انسانی حقوق کا دفاع کرتے رہے ہیں اور ان کی گرفتاریوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے تو انہیں نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔‘‘
عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ’’ان گرفتاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کس طرف جا رہا ہے۔ قاتلوں کی عزت افزائی کی جا رہی ہے لیکن انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔‘‘ دریں اثناء کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے ان گرفتاریوں کے خلا ف کل جمعرات تیس اگست کو ملکی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔