انسانی حقوق سے متعلق نیورمبرگ میں یورپی نوجوانوں کی کانفرنس
11 دسمبر 2012یہ بات انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے ابھی حال ہی میں جنوبی جرمن شہر نیورمبرگ میں ہونے والی نوجوانوں کی ایک یورپی کانفرنس میں بالکل واضح ہو گئی۔ سوچ، مذہب اور اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی، اور برابری، تحفظ، تعلیم اور ملزمان کا مجرم ثابت ہو جانے تک معصوم اور بے قصور ہونا، یہ حقوق بھی ان سب بنیادی انسانی حقوق کی فہرست میں شامل ہیں جو چھ عشرے قبل پیرس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میں منظور کیے گئے انسانی حقوق کے عمومی اعلامیے میں واضح طور پر درج ہیں۔
یہی بنیادی انسانی حقوق آج کی یورپی برادری میں معاشرتی ستونوں کا کام دیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آج کے دور کا ہر یورپی شہری یورپی یونین کے ان تمام ڈھانچوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے، جن کی مدد سے یورپی یونین کا قیام ممکن ہوا۔
نیورمبرگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے یورپی نوجوانوں کی جو کانفرنس منعقد ہوئی، اس کے منتظمین میں جرمنی کی ایک بیس سالہ لڑکی آلیکسانڈرا کَوٹ ہاؤس بھی شامل تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر یونین کے رکن کسی ملک میں سڑک پر کسی سے یہ پوچھا جائے کہ کیا اسے یورپی یونین کے تمام تنظیمی بازؤں کا علم ہے، تو جواب لازمی طور پر نفی میں ہو گا۔
آلیکسانڈرا کَوٹ ہاؤس کہتی ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یورپی نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جس کے ذریعے وہ یورپی یونین کے ذیلی اداروں کو جان سکیں اور ان کی افادیت کا عملی طور پر مشاہدہ بھی کر سکیں۔
نیورمبرگ میں یورپی نوجوانوں کی کانفرنس پانچ دن تک جاری رہی اور اس میں یونین کے رکن 27 میں سے 16 ملکوں کے 80 نوجوانوں نے مختلف موضوعات پر مفصل تبادلہ خیال کیا۔ اس کانفرنس کا نام تھا، Rightfully Yours، یعنی وہ یورپ جو نوجوانوں کا ہے اور جس کے بارے میں یورپی نوجوانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس یورپ اور اس کے تمام اداروں اور ان کی کارکردگی کو جان سکیں۔
اس کانفرنس کے شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ اگر یورپ میں قومی یا یونین کی سطح پر قانون سازی کے لیے براہ راست تجاویز کا حصہ نہ بھی بنے تو کم از کم اس طرح مختلف ملکوں میں یورپی سیاستدانوں کو یہ جاننے کا موقع مل گیا کہ ان کے اپنے معاشروں میں انہیں منتخب کرنے والے نوجوان رائے دہندگان کیا سوچتے ہیں۔
اس یورپی کانفرنس میں نوجوانوں نے ترک وطن، انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور سماجی انضمام کے موضوع پر بھی تفصیلی بحث کی۔ سویڈن سے اس کانفرنس کے لیے نیورمبرگ آنے والے ایک 18 سالہ نوجوان راکوئل روبایو نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اس کے لیے سب سے بڑی نعمت آزادی ہے۔ روبایو نے کہا، ’آزادی سب سے بڑی نعمت ہے، ہر کسی کو آزاد ہونا چاہیے اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ بھی ہے کہ میں نے اس کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے سویڈن سے جرمنی تک کا سفر کیا‘۔
اس کے علاوہ یورپی نوجوانوں کے اس پانچ روزہ اجتماع میں شرکاء نے جس ایک بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ تھی کہ ہم جنس پرستوں کے بنیادی حقوق کا بھی اتنا ہی خیال رکھا جانا چاہیے جتنا کہ غیر ہم جنس پرستوں کے بنیادی حقوق کا۔
کانفرنس کے شرکاء میں اس حوالے سے تاہم کافی اختلاف رائے دیکھنے میں آیا کہ آیا ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی وہی سماجی اور قانونی حقوق حاصل ہونے چاہیئں جو کہ عام طور پر متضاد جنس جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر یورپی نوجوانوں میں پائی جانے والی باہم متضاد سوچ بھی اسی رائے کی عکاسی کرتی ہے، جو اس بارے میں یورپ میں بالعموم پائی جاتی ہے۔
H. Whittle, mm / T. Kohlmann, at