کئی علاقے انسانوں کے لیے انتہائی گرم ہو جائیں گے
5 فروری 2025ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں گرمی کی مہلک لہروں میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ انسان اپنی برداشت کی آخری حدوں کو چھُو رہے ہیں۔ گزشتہ برس سعودی عرب میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ (125 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا تھا اور وہاں حج کے دوران 13 سو سے زائد افراد جان سے چلے گئے تھے۔
منگل کو 'نیچر ریویو ارتھ اینڈ انوائرمنٹ‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں محققین نے گلوبل وارمنگ اور انسانی جسم پر شدید گرمی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ سائنسدانوں نے دنیا کے کئی ایسے علاقوں میں گرمی کی شدت میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا، جو خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کو شدید گرمی کی لہروں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
سائنسدانوں نے گرمی کی خطرناک اور ناقابل برداشت دونوں سطحوں پر غور کیا ہے، جہاں جسم کا بنیادی درجہ حرارت چھ گھنٹے کے اندر اندر 42 سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔
شدید گرمی کے انسانی صحت پر اثرات
اس مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سن 1994 اور سن 2023 کے درمیان گرمی اور نمی 60 سال سے کم عمر کے لوگوں کے لیے غیر محفوظ سطح تک پہنچ گئی اور ایسا، جن علاقوں میں ہوا، ان کا رقبہ عالمی زمینی رقبے کا تقریباً دو فیصد بنتا ہے۔ زیادہ بوڑھے لوگوں کے لیے شدید گرمی سے متاثرہ رقبہ بڑھ کر تقریباً 20 فیصد تک ہو گیا ہے۔
پاکستان میں گرمی کی لہر، سینکڑوں متاثرہ افراد ہسپتالوں میں
اس تحقیق کے مرکزی مصنف ٹام میتھیوزکے مطابق یہ تحقیق زمین کے اوسط درجہ حرارت میں دو سینٹی گریڈ تک اضافے اور اس کے ''ممکنہ طور پر مہلک نتائج‘‘ کو اجاگر کرتی ہے۔ پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے کا مقصد عالمی درجہ حرارت کو ترجیحاً 1.5 سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنا ہے۔ گزشتہ سال عالمی درجہ حرارت اوسطاً 1.5سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا اور اس حوالے سے یہ پہلا سال تھا۔
تحقیق کے مطابق اگر عالمی درجہ حرارت دو سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو سائے میں بھی تیز اور گرم ہوا کے جھونکے ہیٹ اسٹروک کی وجہ بنیں گے۔
ہیٹ اسٹروک کی صورت میں جسم کا قدرتی کولنگ سسٹم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، جس کی وجہ سے چکر آنے اور سر درد سے لے کر اعضاء کی خرابی پیدا ہو سکتی ہے اور یوں انسان ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔ ہوا میں نمی کے ساتھ مل کر کم درجہ حرارت بھی مہلک ہو سکتا ہے، کیونکہ پسینہ جِلد سے بخارات بن کر نہیں نکل پاتا۔
جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور گرمی کی شدید لہروں کی وجہ سے سالانہ ہزاروں اموات ہو جاتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گرمی سے ہر سال کم از کم نصف ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ اصل تعداد 30 گنا تک زیادہ ہو سکتی ہے۔
ا ا / ا ب ا (اے ایف پی)