انتخابات کروانے میں ایک سال لگ سکتا ہے، تھائی جنرل
31 مئی 2014جنرل پراُیت چان اوچا نے یہ بات تھائی لینڈ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام سے اپنے پہلے خطاب میں کہی۔ انہوں نے مظاہرین کو ایک مرتبہ پھر خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی کارروائیاں تھائی عوام کو ’خوشیاں‘ واپس دینے کے عمل کو سست بنا دیں گی۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے حقیقی ادراک کے بغیر مظاہرے جاری رہے تو جمہوری نظام کی جانب واپسی نہیں ہو سکے گی۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جنرل پراُیت کے اس خطاب کا مقصد تھائی عوام کو یہ یقین دہانی کروانا تھا کہ فوج کے پاس ملک کو مستحکم بنانے اور جمہوریت کی بحالی کا منصوبہ موجود ہے۔ تاہم انہیں معزول حکومت کے حامیوں کی ہم دردی ملتی دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ فوجی حکومت نے بھی وہی پروگرام اختیار کیا ہے جس کی حمایت اس سے قبل حکومت مخالف مظاہرین کر رہے تھے۔ انہوں نے سات ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران سرکاری عمارتوں پر قبضے کیے اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث رہے۔ بالآخر انہی مظاہروں کی وجہ سے فوج نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
جنرل پراُیت نے جمعے کے خطاب میں مزید کہا کہ فوج کی قومی کونسل برائے امن و امان (این سی پی او) کو مصالحتی ماحول پیدا کرنے میں کم از کم دو سے تین مہینے لگ جائیں گے جس کے بعد نئے آئین کی تشکیل اور عبوری حکومت کے قیام میں ایک سال کا عرصہ لگ جائے گا۔
انہوں نے کہا: ’’این سی پی او نے قومی انتظامیہ کو طویل سیاسی بحران، مظاہروں اور تشدد کے وجہ سے اپنے ہاتھوں میں لیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہمیں وقت دیجیے تاکہ ہم آپ کے لیے مسائل کو حل کر سکیں۔ اس کے بعد فوجی پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان معاملات سے دُور رہیں گے۔‘‘
جنرل پراُیت نے اس خطاب میں سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا کا ذکر نہیں کیا جن کا سیاسی ڈھانچا مظاہرین کا اصل ہدف رہا ہے۔ تھاکسن کو تھائی لینڈ میں سیاسی تقسیم کا مرکز خیال کیا جاتا ہے۔ انہیں 2006ء میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے الزامات پر فوج نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔
اب ان کی بہن ینگ لک شناواترا کو وزیر اعظم کے منصب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ انہوں نے تین سال قبل زبردست انتخابی کامیابی کے نتیجے میں حکومت بنائی تھی۔