’انتخابات میں حصہ نہ لیا جائے‘، بلوچ علیحدگی پسندوں کی دھمکی
30 جنوری 2013صوبہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں نے عوام کو انتخابات سے دور رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ بلوچستان میں انتخابات کو مسلح مزاحمت کے ذریعے ناکام بنانے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ان تنظیموں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دھمکی آمیز پمفلٹس بھی پھینکے ہیں، جن میں بلوچ عوام کو انتخابات کے بائیکاٹ کا کہا گیا ہے۔
’بلوچستان کی آزادی‘ کے لیے مسلح بلوچ علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں نے صوبے میں عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے جہاں دیگر مختلف زاویوں سے تحریک شروع کر رکھی ہے، وہیں اس سال انتخابات سے قبل ہی ان کالعدم تنظیموں نے صوبے کے مختلف علاقوں میں انتخابات کے انعقاد کو مسلح مزاحمت کے ذریعے ناکام بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
صوبے کے مختلف اضلاع میں دھمکی آمیز پمفلٹس پھینکے گئے ہیں، جن میں مقامی لوگوں بالخصوص بلوچ عوام کو سختی سے یہ بتایا گیا ہے کہ وہ نہ کسی انتخابی مہم کا حصہ بنیں اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کوئی کردار ادا کریں اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو ان افراد کو نشانہ بنایا جائے گا۔
پمفلٹس میں یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ بلوچستان میں انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے بلوچ علیحدگی تنظیموں کی جانب سے تمام پولنگ اسٹیشنوں اور دیگر سرکاری عمارتوں پر حملے کیے جائیں گے اس لیے عوام وہاں سے دور رہیں۔ اسی نوعیت کا ایک دھمکی آمیز پمفلٹ بلوچستان کے ضلع نوشکی پریس کلب میں بھی پھینکا گیا ہے، جس میں انتخابی عمل میں حصہ لینے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ہیں۔
نوشکی سے تعلق رکھنے والے صحافی منظور بلوچ کا کہنا ہے کہ اس پمفلٹ میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ انتخابات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں۔ انہوں نے کہا، ’’بلوچ کالعدم تنظیموں نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابات سے دور رہیں اور اس حوالے سے انہوں نے جو پمفلٹس تقسیم کیے ہیں، ان میں بھی یہ دھمکی دی گئی ہے کہ بی ایل اے کے نشانے پر وہ تمام لوگ ہیں جو ’بلوچستان کی آزادی‘ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ بی ایل اے نے پمفلٹس میں عوام کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رہنے کی دھمکی دی ہے۔‘‘
ادھر بلوچستان کی بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ملک عبدالولی خان کا مؤقف ہے کہ انتخابات سے قبل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت یہاں پر حالات سازگار بنائے اور ناراض بلوچ رہنماوں کو اعتماد میں لے کر اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا،’’ جب تک بلوچ عوام کے حقیقی نمائندے یہاں نہ ہوں، جب تک سارے بلوچ جو اس وقت ملک سے باہر ہیں انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا، ان سے اس حوالے سے معاہدہ نہیں کیا جاتا، انہیں پالیسیوں میں بالخصوص خارجہ پالیسیوں میں شریک نہیں کیا جاتا یہ معاملہ اسی طرح رہے گا۔‘‘
دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل کو خوش اسلوبی سے طے کرنے اور اس دوران امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے مؤثر انتطامات کیے ہیں تاکہ کسی بھی ناخشگوار واقعے سے بر وقت نمٹا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ’’ ہم گھبرانے والے نہیں ہیں الیکشن کمیشن نے اس سال بہترین طور پر انتخابات کے انعقاد کا تہیہ کیا ہے۔ بلوچستان میں انتخابات کے پر امن انعقاد کو اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ لوگ شورش زدہ علاقوں میں آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔‘‘
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کی پشتون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے دو ہزار آٹھ میں ہونے والےعام انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا تاہم رواں سال متوقع انتخابات میں ان جماعتوں کی جانب سے باقاعدہ طور پر حصہ لینے کا امکان ہے اور اس ضمن میں ان بعض جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم بھی شروع کی گئی ہے ۔
روپورٹ: عبدالغنی کاکڑ, کوئٹہ
ادارت: عاطف بلوچ