امریکی وزیر دفاع کا ایران پر ’کامیاب‘ حملوں کا دفاع
وقت اشاعت 26 جون 2025آخری اپ ڈیٹ 26 جون 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
-
ڈبلیو ایچ او کی دو ماہ میں پہلی امدادی کھیپ غزہ پہنچ گئی
-
امریکی وزیر دفاع کا ایرانی جوہری تنصیبات پر ’کامیاب‘ حملوں کا دفاع
-
جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی ایجنٹ ایران میں سرگرم، ایرانی حکام کا دعویٰ
-
نیتن یاہو کا اپنے خلاف کرپشن ٹرائل کے خاتمے کے لیے حمایت پر ٹرمپ کا شکریہ
-
لبنان پر اسرائیلی حملوں میں دو افراد ہلاک، وزارت صحت
-
غزہ میں ’نسل کشی کی تباہ کن حالت‘ ہے، ہسپانوی وزیر اعظم
- روس اور جرمنی کا ایران سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر زور
- امریکہ کو ایران کے خلاف ’کوئی کامیابی نہیں ملی،‘ ایرانی سپریم لیڈر
- ایرانی شوریٰ نگہبان نے آئی اے ای اے کے ساتھ عدم تعاون کے بل کی توثیق کر دی
- ایرانی جوہری ٹھکانوں پر حملوں کے دفاع میں امریکہ کا نیا موقف آج پیش کیا جائے گا
- ٹرمپ کا نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ ختم کرنے یا معافی دیے جانے کا مطالبہ
- ایران کے لیے جاسوسی کے شبے میں یونیورسٹی طالب علم گرفتار
- ایرانی اور روسی وزرائے دفاع کا دورہ چین
- غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 21 فلسطینی ہلاک
ڈبلیو ایچ او کی دو ماہ میں پہلی امدادی کھیپ غزہ پہنچ گئی
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دو مارچ کے بعد پہلی بار غزہ میں طبی امداد کی ترسیل کی ہے، تاہم اس ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ طبی امدادی سامان کی نو ٹرکوں پر مشتمل یہ کھیپ ’’سمندر میں قطرے کے برابر‘‘ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈانوم گیبریسس نے جمعرات کے روز ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’نو ٹرکوں پر ضروری طبی امدادی سامان، 2,000 یونٹس خون اور 1,500 یونٹس پلازما لے جایا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سامان آئندہ چند دنوں میں ترجیحی ہسپتالوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
امریکی وزیر دفاع کا ایرانی جوہری تنصیبات پر ’کامیاب‘ حملوں کا دفاع
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے جمعرات کے روز کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کامیاب رہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے امریکی میڈیا پر اس آپریشن کے نتائج پر سوالات اٹھانے کے حوالے سے سخت تنقید کی۔
ہیگستھ نے پینٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’صدر ٹرمپ نے جنگ ختم کرنے کے لیے حالات پیدا کیے، ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دیا، آپ جو بھی لفظ چن لیں: مٹا دیا، ختم کر دیا، نیست و نابود کر دیا۔‘‘
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے ان حملوں کو ’’شاندار فوجی کامیابی‘‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان سے ایرانی جوہری تنصیبات ’’تباہ‘‘ ہو گئیں۔ ادھر امریکی میڈیا نے ابتدائی انٹیلیجنس جائزہ رپورٹ شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام میں ’’صرف چند ماہ کی تاخیر‘‘ ہوئی ہے۔ ہیگستھ نے اس رپورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسے ’’ایجنڈے‘‘ کے تحت لیک کیا گیا ہے تاکہ حملے کی کامیابی کو مشکوک بنایا جا سکے۔
انہوں نے سی این این، ایم ایس این بی سی اور نیو یارک ٹائمز پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ جعلی خبریں دینے والے ادارے ابتدائی رپورٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔‘‘
جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی ایجنٹ ایران میں سرگرم، ایرانی حکام کا دعویٰ
ایران کے خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے باوجود ملک میں سکیورٹی ہائی الرٹ برقرار ہے کیونکہ اسرائیلی ایجنٹ اب بھی ایران میں سرگرم ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم نے جمعرات کے روز رپورٹ کیا، ’’دشمن کی فوجی کارروائیوں کے رک جانے کا مطلب، اسرائیل کی بدنیتی پر مبنی کارروائیوں کا خاتمہ نہیں ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کارروائیوں میں ایران سے متعلق خفیہ معلومات اکٹھا کرنا، گمراہ کن خبریں پھیلانا اور قومی اتحاد کو کمزور کرنا شامل ہیں۔ حکام نے ہدایت کی ہے کہ ایسے کسی بھی مشکوک رویے کی ہر حال میں اطلاع دی جائے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ کے آغاز کے بعد سے ملک میں درجنوں افراد کو جاسوسی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ بعض واقعات میں انہیں سزائے موت بھی دے دی گئی۔
ان گرفتاریوں کے تناظر میں ملک کے اندر یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ تہران کی قیادت ان الزامات کو حکومت مخالف افراد یا ناقدین کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل نے حالیہ حملوں میں ایران کی عسکری قیادت کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اب تک 20 سے زائد اعلیٰ فوجی افسران ہلاک ہو چکے ہیں۔
لبنان پر اسرائیلی حملوں میں دو افراد ہلاک، وزارت صحت
لبنان کی وزارت صحت کے مطابق جمعرات کو جنوبی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملوں میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں حزب اللہ کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئیں۔
لبنان کی سرکاری نیشنل نیوز ایجنسی نے وزارت صحت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک شخص، جسے اسرائیلی ڈرون حملے میں اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ بلڈوزر چلا رہا تھا، اسپتال میں دم توڑ گیا۔ ایک اور شخص، جو موٹرسائیکل پر حملے میں زخمی ہوا تھا، بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس نے ’’حزب اللہ کی رضوان فورس کے ایک کمانڈر‘‘ کو براشیت کے علاقے میں ہلاک کیا، جب کہ بیت لیف میں ’’حزب اللہ کی نگرانی فورس کے ایک اہلکار‘‘ کو بھی نشانہ بنایا۔
اسرائیل نے 27 نومبر کو طے پانے والی جنگ بندی کے بعد بھی جنوبی لبنان میں اپنے فضائی حملے جاری رکھے ہیں، جن کا مقصد ایران کے حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کو مزید کمزور کرنا بتایا گیا ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے تحت حزب اللہ کو اپنے جنگجوؤں کو لیتانی دریا کے شمال میں منتقل کرنا تھا، جو اسرائیلی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے، اور اس علاقے میں صرف لبنانی فوج اور اقوامِ متحدہ کے امن مشن کو موجود رہنے کی اجازت تھی۔
اسرائیل کو بھی اس معاہدے کے تحت اپنی تمام افواج جنوبی لبنان سے واپس بلانی تھیں لیکن اس نے وہاں پانچ اہم مقامات پر اپنی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے، جنہیں وہ ’’اسٹریٹجک اہمیت‘‘ کا حامل قرار دیتا ہے۔
منگل کو بھی جنوبی لبنان کے ضلع نبطیہ میں اسرائیلی حملے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک کرنسی ایکسچینج کمپنی کا سربراہ بھی شامل تھا، جو حزب اللہ کے لیے فنڈز کی منتقلی میں ملوث تھا۔
غزہ میں ’نسل کشی کی تباہ کن حالت‘ ہے، ہسپانوی وزیر اعظم
اسپین کے وزیرِاعظم پیدرو سانچیز نے جمعرات کے روز غزہ کی صورتحال کو ’’نسل کشی کی تباہ کن حالت‘‘ قرار دیتے ہوئے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدے کو معطل کرے۔
یورپی یونین کے سربراہی اجلاس سے قبل برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سانچیز نے یورپی سفارتی ادارے کی حالیہ انسانی حقوق پر مبنی رپورٹ کا حوالہ دیا، جس کے مطابق غزہ میں ’’نسل کشی کی تباہ کن صورتحال‘‘ جنم لے چکی ہے۔
ہسپانوی وزیر اعظم کا یہ بیان ایک ایسے دن سامنے آیا ہے، جب غزہ میں امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جمعرات کو کیے گئے اسرائیلی حملوں میں کم ازکم پینتیس فلسطینی مارے گئے۔
سانچیز نے کہا کہ یورپی یونین کو انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش نہیں رہنا چاہیے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعاون پر نظرِثانی کرنی چاہیے۔ یہ تبصرے اسپین کے وزیرِاعظم پیدرو سانچیز کی جانب سے اب تک کی سب سے سخت مذمت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سانچیز اسرائیل کے حملوں کے کھلے ناقد رہے ہیں اور وہ یورپ کے ان اولین اور اعلیٰ ترین رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے غزہ کی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے پہلی بار ’’نسل کشی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔
روس اور جرمنی کا ایران سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر زور
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے جمعرات کے روز کہا کہ روس چاہتا ہے کہ ایران اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے آئی اے ای اے کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے۔
یہ بیان اس پیش رفت کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے، جب ایرانی پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ یہ اقدام اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کے ردعمل میں کیا گیا، جس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا بتایا گیا تھا۔
ایران نے پنے ایسے کسی بھی ارادے کی تردید کی ہے۔ روس، جو ایران کا ایک اسٹریٹیجک شراکت دار ہے، اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت کر چکا ہے اور اس کا موقف ہے کہ ایران کو پرامن جوہری توانائی کے پروگرام کا حق حاصل ہے۔
لاوروف نے واضح کیا کہ ایرانی پارلیمنٹ کو اختیارات حکومت حاصل نہیں، اس لیے اس کی قرارداد مشاورتی نوعیت کی ہے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’ہم اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ایران کا آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون جاری رہے۔‘‘
ادھر جمعرات ہی کے روز جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول نے بھی تہران پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ اپنا تعاون معطل نہ کرے۔
انہوں نے برلن میں اپنی کینیڈین ہم منصب انیتا آنند کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’تہران کی قیادت کو واضح، دوٹوک اور شفاف انداز میں کہنا ہو گا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا نہیں چاہتا۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا فیصلہ مکمل طور پر غلط پیغام دیتا ہے۔ اس فیصلے کے مؤثر ہونے کے لیے اسے ایران کی شوریٰ نگہبان اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سربراہی میں قائم سکیورٹی کونسل کی منظوری بھی درکار ہو گی۔
واڈےفیہول نے کہا، ’’میں ایرانی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس راستے پر نہ چلے۔‘‘
ایران کے لیے جاسوسی کے شبے میں یونیورسٹی طالب علم گرفتار
اسرائیل میں ایک 22 سالہ طالب علم کو ایران کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شِن بیت (داخلی سکیورٹی سروس) اور پولیس کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان کے مطابق اس گرفتار شدہ نوجوان پر سکیورٹی جرائم میں ملوث ہونے اور ایرانی ایجنٹوں کی ہدایت پر کارروائیاں کرنے کا الزام ہے۔
بتایا گیا ہے کہ مشتبہ طالب علم بیرشیبا میں واقع بن گورین یونیورسٹی میں انفارمیشن سسٹمز کا طالب علم اور شمالی اسرائیل کے عرب گاؤں دیر الاسد کا رہائشی ہے۔ حکام کے مطابق اسے جون میں گرفتار کیا گیا اور جلد اس پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ گرفتاری ایران کے خلاف 12 روزہ حالیہ جنگ سے پہلے ہوئی یا دوران جنگ۔
بیان کے مطابق مذکورہ طالب علم کئی ماہ سے ایک ایرانی ایجنٹ سے رابطے میں تھا اور مبینہ طور پر معاوضے کے عوض اس کی ہدایات پر ’’سکیورٹی سے متعلق اقدامات‘‘ انجام دیتا رہا تھا۔ ان اقدامات میں ایک شخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش، بیرشیبا کی مرکزی شاہراہ پر کیل بکھیرنا اور معاشرے میں اختلاف پیدا کرنے والے مباحث کو ہوا دینا شامل تھے۔
ملزم نے تفتیش کے دوران بتایا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں سے یکجہتی کے جذبے کے تحت یہ اقدامات کر رہا تھا۔ واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں اسرائیل میں ایران کے لیے جاسوسی کرنے کے شبے میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایرانی شوریٰ نگہبان نے آئی اے ای اے کے ساتھ عدم تعاون کے بل کی توثیق کر دی
ایران کی شوریٰ نگہبان نے آج بروز جمعرات اس پارلیمانی بل کی توثیق کر دی، جس کے تحت تہران کا بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون معطل کر دیا جائے گا۔ یہ اطلاع جمعرات کو ایران کے نوجوان صحافیوں کے کلب (وائے جے سی)کی نیوز ویب سائٹ نے دی۔
شوریٰ نگہبان علماء اور ماہرین قانون پر مشتمل وہ اعلیٰ ادارہ ہے، جو ایران میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کی شرعی اور آئینی حیثیت کا جائزہ لیتا اور ان کی توثیق کرتا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے، جب ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش پائی جاتی ہے اور ایران حالیہ اسرائیلی حملوں اور امریکی کارروائیوں کے بعد ایک بار پھر جوہری توانائی کے نگران بین الاقوامی ادارے کے ساتھ تناؤ کی کیفیت میں ہے۔
امریکہ کو ایران کے خلاف ’کوئی کامیابی نہیں ملی،‘ ایرانی سپریم لیڈر
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکہ کو ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر جنگ میں ’’کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔‘‘ یہ ایرانی سپریم لیڈر کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے مابین جاری رہنے والے بارہ روزہ تنازعے میں سیزفائر کے بعد پہلا رد عمل تھا۔
انہوں نے جمعرات کے روز پہلے ایکس پر جاری کردہ اپنے بیان میں ایرانی عوام کو اسرائیل کے خلاف حالیہ جھڑپوں میں ’’کامیابی‘‘ پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا، ’’میں عظیم ایرانی قوم کو جھوٹی صیہونی حکومت پر فتح کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی حملوں کے سبب اسرائیل ’’تقریباﹰ منہدم‘‘ ہو چکا تھا۔
بعد ازاں سرکاری ٹی وی سے جاری کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں ایرانی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے ’’امریکہ کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ایران کے دشمن میزائل اور نیوکلئیر پروگرام کے بہانے بناتے ہیں، لیکن در اصل وہ ہمارا سرنڈر چاہتے ہیں۔‘‘
خامنہ ای کا کہنا تھا، ’’ٹرمپ نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ایران کو سرنڈر کرنے کی ضرورت ہے، یہ ان (ٹرمپ) کے منہ سے نکلنے والی ایک بڑی بات تھی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے سچ کو بے نقاب کر دیا اور کہا کہ امریکہ صرف ایران کی جانب سے سرنڈر کرنے کی صورت میں ہی مطمئن ہو گا۔
خامنہ ای نے کہا، ’’سرنڈر کبھی نہیں ہو گا، ہماری قوم طاقت ور ہے۔‘‘
امریکہ کی جانب سے اسرائیل کا ساتھ دیے جانے پر خامنہ ای کا کہنا تھا، ’’ٹرمپ کو شو بازی کرنے کی ضرورت تھی۔‘‘ ایرانی سپریم لیڈر نے مستقبل میں ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہنے سے متعلق انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ’’بھاری قیمت‘‘ چکانا پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایران کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ وہ امریکہ کے اہم فوجی اڈوں تک رسائی حاصل کر سکا، اور مستقبل میں اگر دوبارہ جارحیت ہوئی، تو ایسا دوبارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
خامنہ ای کا یہ ردعمل ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب حالیہ ہفتوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان سخت فوجی جھڑپیں ہوئیں، جن میں امریکہ نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے۔ خامنہ ای کے بقول امریکی مداخلت کے باوجود ’’ایران کی مزاحمت قائم ہے اور دشمن اپنے مقاصد میں ناکام رہا۔‘‘
ایرانی جوہری ٹھکانوں پر حملوں کے دفاع میں امریکہ کا نیا موقف آج پیش کیا جائے گا
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ آج چھبیس جون بروز جمعرات ایک اہم پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں، جس میں وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا نیا اور جامع جائزہ پیش کریں گے۔ یہ اقدام ان حملوں کے مؤثر ہونے سے متعلق سامنے آنے والے حالیہ شدید اختلافات کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے تیرہ جون کو ایران کے جوہری اور عسکری مراکز پر متعدد حملوں اور ایران کی جوابی میزائل کارروائیوں کے بعد امریکہ نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو کتنا نقصان پہنچا، یہ معاملہ خود امریکی حلقوں میں بھی متنازعہ ہو چکا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایک خفیہ اندازے میں کہا گیا کہ ان امریکی حملوں سے جوہری پروگرام کے اہم حصے تباہ نہیں ہوئے اور ایران کو اپنے جوہری منصوبے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماہرین نے ایک اور اہم سوال یہ بھی اٹھایا ہے کہ کیا ایران نے حملے سے قبل تقریباً 400 کلوگرام افزودہ یورینیم کہیں اور منتقل کر دیا تھا؟ اگر ایسا ہوا ہے، تو وہ مواد اب ملک کے کسی دور دراز مقام پر چھپایا ہوا ہو سکتا ہے۔ امریکی حکومت نے ان قیاس آرائیوں پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ صدر ٹرمپ بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان حملوں نے ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر ’’تباہ‘‘ کر دیا۔
امریکہ کے آج کے متوقع باضابطہ بیان میں اس تنازع کو سلجھانے اور عالمی برادری کو ایران کی جوہری صلاحیت پر حملوں کے نتائج کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ٹرمپ کا نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ ختم کرنے یا معافی دیے جانے کا مطالبہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمے کو فوری طور پر ختم کر دینے یا انہیں معاف کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدرکا کہنا تھا کہ جیسے امریکہ نے اسرائیل کو بچایا، ویسے ہی وہ ’’بی بی‘‘ نیتن یاہو کو بھی بچائیں گے۔
نیتن یاہو پر 2019 ء میں رشوت، فراڈ اور اعتماد شکنی کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جن کی وہ تردید کرتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت 2020 ء میں شروع ہوئی تھی، جس میں تین مختلف فوجداری کیس شامل ہیں۔ نیتن یاہو ان تمام الزامات میں اپنی بے گناہی کا موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ نے بدھ کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا، ’’بی بی نیتن یاہو کا مقدمہ فوراً ختم کیا جانا چاہیے یا پھر ایک عظیم ہیرو کو معافی دی جائے، جس نے اسرائیل کے لیے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ نیتن یاہو پیر کے روز عدالت میں پیش ہوں گے۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپیڈ نے ٹرمپ کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا کہ امریکی صدر کو ایک خود مختار ریاست کے عدالتی عمل میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم امریکی صدر کا احترام کرتے ہیں لیکن انہیں ایک آزاد ریاست کے عدالتی عمل میں دخل نہیں دینا چاہیے۔‘‘
ٹرمپ نے نیتن یاہو کو ’’ایک جنگجو‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’یہ امریکہ تھا، جس نے اسرائیل کو بچایا اور اب امریکہ ہی نیتن یاہو کو بچائے گا۔‘‘
تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ نیتن یاہو کو قانونی مقدمے میں بچانے کے لیے عملی طور پر کیا کر سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو کے خلاف مقدمے کو ’’وِچ ہنٹ‘‘ (سیاسی انتقام) قرار دیا۔ یہ وہی اصطلاح ہے، جو وہ اپنے خلاف امریکی عدالتی کارروائیوں کے دوران بھی استعمال کرتے رہے ہیں اور نیتن یاہو بھی یہی اصطلاح اپنے خلاف مقدمے میں استعمال کرتے آئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے ان گرمجوش بیانات سے ایک روز قبل انہوں نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی ایران پر کیے گئے حملوں پر غیر معمولی تنقید کی تھی۔
ایرانی اور روسی وزرائے دفاع کا دورہ چین
چین نے جمعرات کے روز اپنے مشرقی ساحلی شہر چنگڈاؤ میں ایران اور روس کے وزرائے دفاع کی میزبانی کی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی جاری ہے اور یورپ میں نیٹو ممالک کا سربراہی اجلاس دفاعی اخراجات میں اضافے کے فیصلے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ہے۔
بیجنگ طویل عرصے سے 10 رکنی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کو مغرب کی زیر قیادت اتحادوں کے مقابلے میں ایک متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرتا رہا ہے اور اس نے رکن ممالک کے درمیان سیاست، سلامتی، تجارت اور سائنس کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔
چنگڈاؤ میں اس تنظیم کے اعلیٰ دفاعی حکام کی یہ ملاقات ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جھڑپوں کے بعد ایک نازک جنگ بندی قائم ہے۔ یہ اجلاس ایسے دن منعقد ہوا، جب نیدرلینڈز میں نیٹو رکن ممالک کے سربراہی اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مطمئن کرنے کے لیے دفاعی بجٹ میں اضافے پر اتفاق کیا گیا۔
غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 21 فلسطینی ہلاک
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کے مطابق آج چھبیس جون بروز جمعرات اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 21 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب مصر اور قطر جیسے ثالث ممالک نے اسرائیل اور حماس سے رابطے بحال کر دیے ہیں تاکہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق شہر کے علاقے شیخ رضوان میں بے گھر افراد کے لیے ایک اسکول میں قائم پناہ گاہ پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے۔ غزہ پٹی کے جنوبی شہر خان یونس میں ایک خیمہ بستی کے قریب ایک اور فضائی حملے میں بھی نو افراد مارے گئے۔
وسطی غزہ میں واقع ایک اہم شاہراہ پر اقوام متحدہ کی امدادی گاڑیوں کا انتظار کرنے والے شہریوں پر اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں مزید تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ حالیہ ہفتوں میں امداد کی فراہمی کے لیے مختص مقامات پر درجنوں فلسطینی ہلاکتوں کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
جمعرات کے روز کیے گئے ان حملوں پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ وہ حماس کے جنگجوؤں کا خاتمہ اور ان کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ غزہ میں تازہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت پر ہوئی ہیں، جب امریکہ کی حمایت سے مصر اور قطر نے فریقین کے ساتھ دوبارہ جنگ بندی مذاکرات کی کوششیں شروع کی ہیں۔ تاہم حماس کے ذرائع کے مطابق نئے مذاکرات کے لیے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں ہو سکی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، جو دائیں بازو کی جماعتوں کے حکومتی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں، اصرار کر رہے ہیں کہ جنگ کے خاتمے کے لیے حماس کو تمام یرغمالی رہا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور ہتھیار دونوں چھوڑنا ہوں گے۔
جواباً حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل مستقل جنگ بندی پر آمادہ ہو اور غزہ سے اپنی فوجیں نکال لے، تو وہ یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار ہے۔ یہ فلسطینی عسکری تنظیم واضح کر چکی ہے کہ وہ اب غزہ پر حکومت کرنے کی خواہش مند نہیں، لیکن اس نے ہتھیار ڈالنے پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر 2023ء کو جنوبی اسرائیل میں ایک دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے بھرپور فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق ان اسرائیلی حملوں میں اب تک 56,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور علاقے کا بہت بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے۔
تاحال زیادہ تر یرغمالیوں کی رہائی حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہوئی ہے