امریکی حملے کی صورت میں ایرانی ردعمل سخت ہو گا، خامنہ ای
31 مارچ 2025ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے آج اکتیس مارچ بروز پیر امریکہ کو خبردار کیا کہ اگر واشنگٹن نے ایران پر حملہ کیا تو سخت جوابی کارروائی کی جائے گی۔ خامنہ ای نے ایک براہ راست نشر کی جانے والی تقریر کے دوران کہا، ''وہ شرارت کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ کے اوائل میں ایرانی سپریم لیڈر کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ اگر تہران واشنگٹن کے ساتھ نئے جوہری معاہدے تک نہیں پہنچتا، تو اسے سخت دھچکا لگے گا۔ ٹرمپ نے اتوار کو اپنی اس دھمکی کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایران نے مذاکرات کے لیے ان کی پیشکش کو قبول نہ کیا، تو اس پر بمباری کی جائے گی۔
اس کے جواب میں خامنہ ای کا کہنا تھا، ''امریکہ اور اسرائیل کی ایران سے دشمنی ہمیشہ سے رہی ہے، وہ ہم پر حملہ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، جس کا ہمارے خیال میں بہت زیادہ امکان نہیں ہے، لیکن اگر وہ کوئی شرارت کرتے ہیں تو انہیں یقیناً ایک سخت جوابی دھچکا لگے گا۔‘‘ خامنہ ای نے مزید کہا، ''اور اگر وہ گزشتہ سالوں کی طرح ایران کے اندر بغاوت کروانے کا سوچ رہے ہیں، تو ایرانی عوام خود ان سے نمٹیں گے۔‘‘
ایرانی حکام 2022 میں مبینہ طور پر ایران کے سخت حجاب قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کی گئی خاتون مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد شروع ہونے والے پر تشدد احتجاج سمیت حالیہ بدامنی کے لیے مغرب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بھی اتوار کے روز وضاحت کی کہ تہران واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا، لیکن خامنہ ای کے حکم کے مطابق یران بالواسطہ طور پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران 2018ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے پانے والے اس جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی، جس کے تحت پابندیوں میں نرمی کے بدلے تہران کی متنازعہ جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
ٹرمپ نے تہران پر امریکی پابندیاں بھی دوبارہ لگا دیں۔ اس کے بعد سے ایران یورینیم کی افزودگی سے متعلق اس معاہدے کی حدود سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ مغربی طاقتیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ یورینیم کی افزودگی کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت کو فروغ دینے کا خفیہ ایجنڈا رکھتا ہے، اور یورینیم کی افزودگی کی یہ شرح سویلین جوہری توانائی کے پروگرام کی جائز حدود سے کئی درجے زیادہ ہے۔ تہران کا تاہم اس کے برعکس کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام قطعی پر امن اور محض توانائی کے حصول کے مقاصد کے لیے ہے۔
ش ر⁄ م م (روئٹرز، اے ایف پی)