امریکہ میں ٹرمپ-زیلنسکی ملاقات: کئی یورپی رہنما ساتھ ہوں گے
وقت اشاعت 17 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 17 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- اسرائیل میں ایک روزہ ملک گیر ہڑتال: حکومت سے یرغمالیوں کی رہائی کی ڈیل کا مطالبہ، درجنوں مظاہرین گرفتار
- یوکرین کے لیے ’نیٹو اسٹائل‘ سکیورٹی ضمانتوں کے امکان کا یورپی کمیشن کی طرف سے خیر مقدم
- پیر کے روز امریکہ میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات: کئی یورپی رہنما بھی ساتھ ہوں گے
- عراق میں داعش کی بنائی ہوئی ممکنہ طور پر ہزاروں افراد کی اجتماعی قبر، کھدائی شروع
- شام کو دوبارہ متحد کرنے کی جنگ خون خرابے سے نہیں، صدر احمد الشرع
- غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم چالیس فلسطینی ہلاک
- پاکستان میں سیلاب: بنیر میں 220 ہلاکتیں، ریلیف آپریشن جاری
اسرائیل میں ایک روزہ ملک گیر ہڑتال: حکومت سے یرغمالیوں کی رہائی کی ڈیل کا مطالبہ، درجنوں مظاہرین گرفتار
اسرائیل میں حکومت سے کیے جانے والے یہ مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ بالآخر وہ ڈیل طے کر لے، جس کے نتیجے میں یرغمالی اسرائیلی شہریوں کو واپس لایا جا سکے۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے مختلف شہروں میں یرغمالیوں کے اہل خانہ کی قائم کردہ تنظیم کی طرف سے بار بار مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ تاہم آج اتوار کے روز یہ مظاہرے اس وقت ایک مختلف صورت اختیار کر گئے، جب مظاہرین نے صرف احتجاج کرتے رہنے کے بجائے ہڑتال بھی شروع کر دی۔
سات اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے تھائی باشندے کی لاش برآمد کر لی ہے، اسرائیل
آج اتوار 17 اگست کو پورے اسرائیل میں ایک روزہ ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دوران مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور وزیر اعطم نیتن یاہو کی حکومت سے مطالبے کیے گئے کہ وہ حماس کے ساتھ وہ ڈیل کر لیں، جس کے بعد یرغمالی اسرائیلی شہری واپس اپنے گھروں کو آ سکیں۔
یروشلم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آج کے مظاہروں کے دوران، جن میں یروشلم میں بھی شہریوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا، پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تیز دھار پانی کا استعمال کرنا پڑا۔ نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ اسرائیلی پولیس کو نہ صرف واٹر کیننز کا استعمال کرنا پڑا بلکہ اس دوران درجنوں مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔
حماس نے آخری امریکی اسرائیلی یرغمالی کو رہا کر دیا
آج کی ہڑتال کے دوران اسرائیل میں کئی شہروں میں بہت سی سڑکیں ٹریفک کے لیے بند کر دی گئیں جبکہ احتجاجاﹰ کاروباری ادارے بھی بند رہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق آج کے احتجاج کے دوران مظاہرین ایسے نعرے بھی لگا رہے تھے: ’’یرغمالیوں کی لاشوں کی بنیاد پر جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔‘‘
اسرائیل میں آج کی ہڑتال کے دوران مظاہرین نے ملک بھر میں درجنوں مقامات پر سیاست دانوں کے گھروں، اہم شاہراہوں اور ملکی فوج کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی۔
یوکرین کے لیے ’نیٹو اسٹائل‘ سکیورٹی ضمانتوں کے امکان کا یورپی کمیشن کی طرف سے خیر مقدم
یورپی یونین کے کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے کہ روسی یوکرینی تنازعے کے حل کے عمل میں یوکرین کو اس کی سلامتی سے متعلق ’نیٹو اسٹائل‘ سکیورٹی ضمانتیں دی جا سکتی ہیں۔
برسلز سے اتوار 17 اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یورپی کمیشن کی سربراہ فان ڈئر لاین نے یہ بات برسلز میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ آج ہونے والی ایک ملاقات میں کہی۔
یوکرینی صدر اس وقت برسلز میں ہیں، جہاں وہ یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتون کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کل پیر کے روز واشنگٹن میں صدر زیلنسکی کی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے صرف ایک روز قبل عمل میں آ رہی ہیں۔
امریکی اور یوکرینی صدور کی واشنگٹن میں 18 اگست کو ہونے والی ملاقات میں یوکرینی موقف کی تائید و حمایت کے لیے جرمنی کے چانسلر میرس، فرانسیسی صدر ماکروں اوربرطانیہ کے وزیر اعظم اسٹارمر بھی ذاتی طور پر واشنگٹن جائیں گے۔
یورپی کمیشن کی سربراہ نے صدر زیلنسکی سے اپنی برسلز میں آج ہونے والی ملاقات میں کہا، ’’ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ اس بات پر آمادہ ہیں کہ یوکرین کے لیے نیٹو اتحاد کے آرٹیکل پانچ کی طرح کی سکیورٹی ضمانتوں میں امریکہ بھی اپنا حصہ ڈالے اور پھر ساتھ ہی اس میں اپنی رضامندی سے ایسے ممالک بھی شامل ہوں، جن میں یورپی یونین بھی ایک بلاک کے طور پر شامل ہو گی۔‘‘
واشنگٹن میں کل صدر زیلنسکی کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر کئی دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین بھی ذاتی طور پر موجود ہوں گی۔
پیر کے روز امریکہ میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات: کئی یورپی رہنما بھی ساتھ ہوں گے
یوکرینی جنگ میں سیزفائرکے موضوع پر امریکہ اور روس کے صدور کی الاسکا سمٹ کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی پیر کے روز واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملیں گے۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے رہنما بھی صدر زیلنسکی کے ساتھ جائیں گے۔
یورپ: یوکرین کے مہاجرین کو کون کتنی امداد دیتا ہے؟
یورپ میں لندن، پیرس، برسلز اور برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جمعے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ امریکی ریاست الاسکا میں اینکریج کے مقام پر یوکرینی جنگ سے متعلق جو کئی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، اس کے بعد مشاورت کے لیے یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلسنکی پیر 18 اگست کو واشنگٹن جائیں گے، جہاں وہ صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملیں گے۔
اس ٹرمپ-زیلنسکی ملاقات کے بارے میں اندازہ ہے کہ امریکی صدر یوکرینی ہم منصب پر زور دیں گے کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی کے لیے کسی ایسے سیزفائر معاہدے پر رضا مند ہو جائیں، جس کی مدد سے مستقبل قریب میں مستقل جنگ بندی ممکن ہو سکے۔
ان حالات میں مختلف یورپی دارالحکومتوں سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ صدر زیلنسکی کی ہمت بندھانے اور گفتگو میں امریکی صدر پر اثر انداز ہونے کے لیے امریکہ کے تین بڑے اتحادی یورپی ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت بھی یوکرینی صدر کے ساتھ امریکہ جائیں گے۔ اس ملاقات کے دوران جو یورپی رہنما وہاں موجود ہوں گے، ان میں سے جرمن چانسلر فریڈرش میرس، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
صدر زیلنسکی آج برسلز میں
پیر کے دن امریکہ کے سفر سے قبل آج اتوار کو یوکرینی صدر زیلنسکی برسلز میں یورپی کمیشن کے صدر دفاتر پہنچ گئے، جہاں وہ یورپی کمیشن کی صدر اوزولا فان ڈئر لاین سے مل رہے ہیں۔
ساتھ ہی اس موقع پر جرمن چانسلر میرس، فرانسیسی صدر ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر یوکرین کے اتحادی ممالک کے ایک ایسے اجلاس کی مشترکہ میزبانی بھی کر رہے ہیں، جس میں روسی یوکرینی جنگ میں کییف حکومت کے موقف کو تقویت دینے کے لیے صدر زیلنسکی کی حمایت کی جائے گی، بالخصوص اس نقطہ نظر سے کہ اگر روس اور یوکرین کے مابین کوئی جنگ بندی معاہدہ طے پا جاتا ہے، تو اس میں یوکرین کے لیے سلامتی کی ضمانتیں لازمی طور پر شامل ہونا چاہییں۔
امریکہ کے اتحادی اور یوکرین کے حلیف مغربی یورپی ممالک کا اصرار ہے کہ یوکرین سے متعلق کسی بھی ڈیل میں کییف کو سلامتی کی جو ضمانتیں دی جائیں، ان میں لازمی طور پر امریکہ کا بھی ایک عملی کردار ہونا چاہیے۔
ٹرمپ کا یوکرینی صدر پر دباؤ
امریکی صدر ٹرمپ روسی ہم منصب پوٹن سے ملاقات کے بعد بظاہر اس امر پر مصر ہیں کہ یوکرین روس کے ساتھ قیام امن پر آمادہ ہو جائے۔
دوسری طرف باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات میں جن تجاویز پر بات کی گئی، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ روس اپنے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں سے چند چھوٹے علاقے کییف کو واپس کر دے، اس کے جواب میں یوکرین اپنے مشرق میں وسیع تر علاقہ ماسکو کو دے دے جبکہ جنگی محاذوں والے دیگر علاقوں کی حیثیت کو ’’جیسے اور جہاں‘‘ کی بنیاد پر منجمد کر دیا جائے۔
ماہرین کے مطابق اس تجویز کو قبول کرنا یا اسی نوعیت کے روسی صدر کے دیگر سخت مطالبات پر اتفاق کرنا یوکرینی صدر زیلنسکی کے لیے انتہائی مشکل ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ ثالثی اور مذاکرات کے ذریعے روسی یوکرینی جنگ میں کسی قابل قبول تصفیے تک پہنچا سیاسی سفارت کاری کے لحاظ سے ایک کٹھن عمل ہو گا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ روسی یوکرینی جنگ اب یورپ میں گزشتہ 80 برسوں کی سب سے خونریز جنگ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے اب تک مجموعی طور پر ایک ملین سے زائد انسان ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔
عراق میں داعش کی بنائی ہوئی ممکنہ طور پر ہزاروں افراد کی اجتماعی قبر، کھدائی شروع
عراقی حکام نے ایک ایسی بہت بڑی اجتماعی قبر کی جگہ پر کھدائی شروع کر دی ہے، جو عراق اور شام کے کئی حصوں پر دہشت گرد تنظیم داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے کے دوران بنائی گئی تھی اور جس میں ممکنہ طور پر ہزاروں افراد کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو پھینک دیا گیا تھا۔
عراقی دارالحکومت بغداد سے ملنے والی رپورٹوں میں اتوار 17 اگست کے روز بتایا گیا کہ ’دولت اسلامیہ‘ یا داعش، جس نے عراق اور شام کے کئی حصوں پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا، نے یہ بہت بڑی اجتماعی قبر عراقی شہر موصل کے قریب بنائی تھی۔
اس اجتماعی قبر کی کھدائی کے منصوبے کے سربراہ احمد الاسدی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس جگہ پر کھدائی کے ابتدائی مرحلے کا آغاز 10 اگست کو کیا گیا، جس کے بعد اب یہ کھدائی سطح زمین سے نیچے تک کی جا رہی ہے۔
ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ
احمد الاسدی نے کہا کہ ’دولت اسلامیہ‘ کے نام نہاد اقتدار کے انتہائی خونریز دور کی محدود مدت میں یہ اجتماعی قبر موصل کے قریب خصفہ نامی مقام پر بنائی گئی تھی۔
موصل داعش کا ’دارالخلافہ‘ تھا
موصل ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی نام نہاد خلافت کا دارالخلافہ قرار دیا گیا تھا اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس اجتماعی قبر میں داعش کے جہادیوں نے کم از کم بھی چار ہزار افراد کو قتل کر کے ان کی لاشیں دفنائی تھیں۔
داعش نے گزشتہ دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنی ’خلافت‘ قائم کر کے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انتہائی سخت قوانین نافذ کر دیے تھے، جن کے نفاذ کا انہیں ’اسلامی قوانین‘ کہہ کر دفاع کیا گیا تھا۔ عراق میں داعش کی یہ ’خلافت‘ 2017ء کے اواخر میں کئی ملکی عسکری اتحاد کی طرف سے متواتر حملوں اور فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ختم ہو گئی تھی اور اس کا نام نہاد خلیفہ روپوش ہو گیا تھا۔ بعد میں ابوبکر البغدادی نامی داعش کا یہ خلیفہ بھی ایک مسلح آپریشن میں مارا گیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس کے ایک نامہ نگار نے شمالی عراق میں اتوار کے روز ذاتی طور پر خصفہ کے مقام پر اس بہت بڑی اجتماعی قبر کی جگہ کا دورہ کیا اور بعد ازاں بتایا کہ وہاں کھدائی کرنے والے ماہرین اب تک اس ریتلے علاقے میں برسوں پہلے بنائی گئی اجتماعی قبر سے کئی انسانی کھوپڑیاں برآمد کر چکے ہیں۔
شام کو دوبارہ متحد کرنے کی جنگ خون خرابے سے نہیں، صدر احمد الشرع
شامی صدر احمد الشرع نے کہا ہے کہ برسوں تک خونریز خانہ جنگی کا شکار رہنے والے اس ملک میں دوبارہ اتحاد کی جنگ ’’خون خرابے سے نہیں‘‘ لڑی جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے شامی ریاست کی کسی بھی ممکنہ تقسیم کی سوچ کو قطعی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جنوبی شام کی صورت حال میں مداخلت کر رہا ہے، جو اسے فوراﹰ بند کرنا چاہیے۔
شام کے عبوری صدر الشرع کا یہ بیان آج اتوار 17 اگست کو سرکاری ٹیلی وژن سے ایک ایسے وقت پر نشر ہوا، جب جنوبی شام میں سویدا نامی صوبے میں سینکڑوں افراد احتجاج کے لیے جمع تھے۔ یہ مظاہرین حالیہ مہینوں میں سویدا میں ہونے والی فرقہ وارانہ خونریزی کی مذمت کر رہے تھے اور ساتھ ہی ان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ ملکی سطح پر دروز مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی اکثریتی آبادی والے صوبے سویدا کو اس کا حق خود ارادیت دیا جائے۔
دمشق سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق صدر احمد الشرع نے شمال مغربی شامی صوبے ادلب سے آنے والی سرکردہ شخصیات اور اعلیٰ حکام کے ایک مکالمتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سویدا میں بدامنی کے تناظر میں کہا، ’’ہمیں ابھی ایک اور جنگ کا سامنا ہے، شام کو دوبارہ متحد کرنے کی جنگ، کئی سالہ خانہ جنگی کے بعد، اور یہ جنگ نہ تو خونریزی سے لڑی جانا چاہیے اور نہ ہی عسکری طاقت سے۔ ایسا ایک مفاہمتی عمل کے ذریعے کیا جانا چاہیے، کیونکہ شام اب جنگ سے بہت تنگ آ چکا ہے اور تھک چکا ہے۔‘‘
دروز کون ہیں اور اسرائیل ان کی مدد کیوں کرتا ہے؟
ساتھ ہی صدر احمد الشرع نے کہا، ’’میری رائے میں شام کو اپنی تقسیم کے کسی خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایک ایسا عمل شروع کیا جائے، جس کے نتیجے میں شام کو تقسیم کر دیا جائے اور چھوٹے چھوٹے انتظامی علاقے قائم کر دیے جائیں۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔‘‘
سویدا میں آج اتوار کے روز ہونے والے مقامی دورز آبادی کے مظاہرے میں کئی شرکاء اسرائیلی پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے، جنہیں لہراتے ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ اس شامی خطے کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکے۔
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم چالیس فلسطینی ہلاک
جنگ زدہ غزہ پٹی کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق کل ہفتے کے روز اسرائیلی حملوں میں مزید کم از کم 40 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اسی دوران غزہ سٹی میں ایک نئی اور وسیع تر اسرائیلی فوجی کارروائی کے آثار بھی واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
غزہ پٹی سے اتوار 17 اگست کو ملنے والی رپورٹوں میں حماس کے زیر انتظام اس خطے کی سول ڈیفنس ایجنسی نے کہا ہے کہ کل ہفتہ 16 اگست کو اس گنجان آباد فلسطینی ساحلی پٹی کے مختلف حصوں میں اسرائیلی فوج کے زمینی اور فضائی حملوں میں مزید کم از کم 40 افراد مارے گئے۔
نیتن یاہو ایک ’مسئلہ‘ بن چکے ہیں، ڈینش وزیر اعظم
ساتھ ہی غزہ پٹی کے سب سے بڑے شہر غزہ سٹی کی سویلین آبادی سے اسرائیلی فوج کے یہ مطالبات بھی بظاہر واضح ہوتے جا رہے ہیں کہ باقی ماندہ شہری آبادی بھی وہاں سے نکل جائے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی اعلان کیا تھا کہ ان کی سکیورٹی کابینہ نے منظوری دے دی ہے کہ اسرائیل غزہ سٹی کو پوری طرح دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لے۔
کوگاٹ کا اعلان
غزہ پٹی کی جنگ کو شروع ہوئے اب تک 22 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سات اکتوبر 2023ء کو اسرئیل میں حماس کے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 61 ہزار 800 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
حماس کے اسرائیل میں حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، جبکہ حملے کے بعد غزہ لوٹتے ہوئے فلسطینی عسکریت پسند 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔
ان یرغمالیوں میں سے درجنوں اب بھی حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے متعدد کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسی دوران اسرائیلی وزارت دفاع کے فلسطینی علاقوں سے متعلقہ شہری امور کے نگران ادارے کوگاٹ (COGAT) نے آج اتوار کے روز کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ پٹی میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو آج سے مزید خیمے اور عارضی رہائش گاہوں کے لیے استعمال ہونے والے دیگر ساز و سامان مہیا کرنا شروع کر دے گی۔
جنگی علاقوں سے شہری آبادی کی منتقلی کا اسرائیلی منصوبہ
اسرائیلی وزارت دفاع کے ذیلی ادارے کوگاٹ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’جنوبی غزہ پٹی کے جنگی علاقوں سے شہری آبادی کی منتقلی کے منصوبوں کے تحت اسرائیلی فوج وہاں مزید خیموں اور دیگر سامان کی ترسیل بحال کر رہی ہے۔‘‘
اس پیش رفت پر اپنے ردعمل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے ’’مذمت کرتے ہوئے‘‘ کہا کہ یہ ’’اسرائیلی اعلان غزہ سٹی پر قبضے کے لیے سفاکانہ حملے کی تیاریوں کا حصہ ہے۔‘‘
غزہ سٹی کے رہائشی کئی مقامی باشندوں نے حالیہ دنوں میں نیوز ایجنسی اے ایف ہی کو بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج اس شہر کے زیتوں اور دیگر علاقوں پر اپنے فضائی حملے اس لیے تیز کر چکی ہے کہ وہاں سے شہری آبادی کے انخلا کے بعد اس شہر پر فوجی قبضے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
غزہ پٹی کے شہری دفاع کے ادارے کے ترجمان محمود باسل نے بتایا کہ غزہ سٹی کے زیتون اور دیگر علاقوں میں تقریباﹰ 50 ہزار مقامی باشندے ایسے ہیں، جن کی اکثریت کو اس وقت پینے کے پانی اور اشیائے خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
پاکستان میں اچانک سیلاب: ضلع بنیر میں 220 ہلاکتیں، ریلیف آپریشن جاری
پاکستان میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد سیلاب کے نتیجے میں صوبے خیبر پختونخوا کے صرف ایک ضلع بنیر میں ہی 220 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد ریلیف آپریشن آج اتوار کے دن بھی جاری ہیں۔
اس جنوبی ایشیائی ملک سے اتوار 17 اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستان بھر میں اب تک مون سون کے امسالہ سیزن کے دوران شدید بارشوں کے نتیجے میں کئی علاقوں میں اچانک تباہ کن سیلاب آ چکے ہیں۔ ان سیلابوں میں ملک بھر میں اب تک سینکڑوں شہریوں کی جانیں جا چکی ہیں۔
ان ہلاکتوں میں سے کسی ایک دن کے دوران سب سے زیادہ اموات صوبے خیبر پختونخوا کے پہاڑی ضلع بنیر میں ہوئیں، جہاں ان کی تعداد 220 سے تجاوز کر چکی ہے۔ بنیر میں مون سون کی مسلسل شدید بارشوں کے نتیجے میں جو اچانک سیلاب آئے، وہ اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے گئے۔
اچانک سیلاب کے ساتھ ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی
کل ہفتے کی رات تک بنیر میں 220 سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی تھی جبکہ آج اتوار کے روز وہاں امدادی کارکن تاحال لاپتہ افراد کی تلاش اور متاثرین کے لیے ریلیف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بنیر میں اچانک سیلابوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے کئی واقعات بھی پیش آئے تھے۔
ضلع بنیر میں ایمرجنسی سروسز کے ترجمان محمد سہیل نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ریسکیو اور ریلیف کی مسلسل کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک اس ضلع میں متاثرہ سڑکوں میں سے نصف سے زائد ٹریفک کے لیے دوبارہ کھولی جا چکی ہیں۔
اس پیش رفت کے باعث اب ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کے لیے درکار ہیوی مشینری ان سڑکوں کے ذریعے ایسے دور دراز دیہات تک پہنچائی جا سکتی ہے، جو اس قدرتی آفت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اپنے ارد گرد کے علاقوں سے تقریباﹰ کٹے ہوئے ہیں۔
ایک ہی خاندان کے 24 افراد ہلاک
بنیر میں اچانک سیلاب کے دوران جو کئی انتہائی ہلاکت خیز واقعات پیش آئے، ان میں سے ایک واقعے میں ایک مقامی گاؤں میں ایک ہی خاندان کے 24 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس گاؤں میں اس خاندان کا گھر اس وقت سیلابی پانی میں بہہ گیا، جب وہاں شادی کی ایک تقریب کے سلسلے میں بہت سے مہمان اور رشتہ دار جمع تھے۔
اس خاندان کے سربراہ عمر خان نے بتایا کہ وہ اس سیلاب میں اس وجہ سے اتفاقاﹰ بچ گئے کہ جب سیلابی ریلہ ان کے گھر کو بہا لے گیا، تب وہ کسی کام کی وجہ سے گھر سے باہر تھے۔ عمر خان نے بتایا کہ ان کے چار رشتہ دار ابھی تک لا پتہ ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کل ہفتے کے روز ضلع بنیر کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ حکومت مرنے والوں میں سے ہر ایک کے پسماندگان کو فوری امدا دکے طور پر دو ملین روپے ادا کرے گی۔
ادارت: امتیاز احمد، عدنان اسحاق