امریکہ مذاکرات میں بے پروائی برت رہا ہے، ایرانی سپریم لیڈر
9 فروری 2025تہران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ برقرار رکھنے کی امریکی پالیسی کے تحت ایسا ممکن نہیں۔
وزیر خارجہ نے ٹیلی گرام پر اپنا ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا، ''پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے، لیکن 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کے تحت ہرگز نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کے دباؤ میں مذاکرات نہیں ہو سکتے بلکہ یہ ہتھیار ڈالنے یا سرنڈر کرنے کے مترادف ہو گا۔
ایرانی وزیر خارجہ کا یہ بیان، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے حکومت پر زور ڈالنے کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات نہ کیے جائیں۔ انہوں نے واشنگٹن کے اس طرز عمل کو 'بےپروائی‘ سے تشبیہ دی۔
خامنہ ای، جن کے پاس ایران کے تمام تزویراتی فیصلوں پر حتمی رائے کا حق موجود ہے ہے، نے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے ایران کے سابقہ تجربات کا حوالہ بھی دیا۔
2015 میں ایران نے بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو منظم کرنے کے لیے امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا۔
تاہم 2018 میں، اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے یورپی مخالفت کے باوجود یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر دیا تھا اور تہران پر ماضی میں لاگو پابندیاں ایک بار پھر بحال کر دی تھیں۔
ٹرمپ نے رواں ہفتے ایران کے ساتھ پہلے سے جاری جوہری امن معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار تیار کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ایران کا اصرار ہے کہ تہران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے کسی بھی ارادے سے انکار کرتا رہا ہے۔
تاہم امریکی صدر نے اسی ہفتے ایران پر اپنے "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی کو ایک بار پھر بحال کر دیا ہے۔ رواں ہفتے واشنگٹن نے ایسے اداروں اور افراد پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا، جن پر سینکڑوں ملین ڈالر مالیت کا ایرانی خام تیل چین کو بھیجنے کا الزام ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے گزشتہ روز اس تناظر میں جاری اپنے بیان میں کہا کہ ایران ایسے ملک کے ساتھ مذاکرات کا روادار نہیں، جو بیک وقت بات چیت کی خواہش بھی ظاہر کرے اور نئی پابندیاں لاگو کرنے میں بھی مصروف عمل ہو۔
ر ب/ ا ا (اے ایف پی)