اقوامِ متحدہ نے غزہ میں باقاعدہ قحط کا اعلان کر دیا
وقت اشاعت 22 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 22 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- جرمن ڈویلپمنٹ منسٹر کا غزہ کے لیے امداد میں اضافے کا مطالبہ
- اقوامِ متحدہ نے غزہ میں باقاعدہ قحط کا اعلان کر دیا
- غزہ کو بھوکا رکھنا ’جنگی جرم‘ ہے، اقوام متحدہ
- تہران اور یورپی طاقتوں کے مابین ایرانی جوہری پروگرام پر بات چیت آج ہو رہی ہے
- حماس غیر مسلح نہ ہوئی اور یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو غزہ شہر کو تباہ کر دیں گے، اسرائیل
جرمن ڈویلپمنٹ منسٹر کا غزہ کے لیے امداد میں اضافے کا مطالبہ
جرمن ڈویلپمنٹ منسٹر ريم العبلی رادوفان نے غزہ کی پٹی میں نمایاں طور پر زیادہ امداد پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی طرف سے یہ مطالبہ ایک بین الاقوامی فوڈ سکیورٹی اتھارٹی کی طرف سے پہلی بار باضابطہ طور پر علاقے کے ایک حصے میں قحط کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
جرمنی کی خاتون منسٹر نے کہا کہ اقوام متحدہکی حمایت یافتہ انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) کی رپورٹ غزہ میں تباہ کن صورتحال کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’زیادہ سے زیادہ لوگ، خاص طور پر بچے، ہماری آنکھوں کے سامنے بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔ قحط مکمل طور پر انسانوں کا پیدا کردہ ہے۔‘‘
آئی پی سی نے آج جمعہ 22 اگست کو غزہ گورنریٹ میں قحط کی تصدیق کی، جو ایک انتظامی علاقہ ہے، جس میں غزہ شہر بھی شامل ہے۔
قحط کا باضابطہ اعلان اس وقت کیا جاتا ہے، جب صورتحال تین معیارات پر پوری اُترتی ہو۔
کم از کم 20 فیصد گھرانے خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہوں۔
کم از کم 30 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں۔
ہر 10,000 باشندوں میں سے کم از کم دو بالغ یا چار بچے روزانہ بھوک، غذائی قلت اور بیماری کے سبب مر رہے ہوں۔
جرمن ڈویلپمنٹ منسٹر نے مزید کہا، ’’امدادی ترسیلات تک رسائی میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن آئی پی سی کی رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہ بالکل بھی کافی نہیں ہے۔ فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے اور اسی کے ساتھ حماس کو یرغمالیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرنا چاہیے۔‘‘
اقوامِ متحدہ نے غزہ میں باقاعدہ قحط کا اعلان کر دیا
اقوامِ متحدہ نے جمعے کے روز باضابطہ طور پر غزہ میں قحط کا اعلان کرتے ہوئے اس کی وجہ اسرائیل کی طرف سے امداد میں ’’منظم رکاوٹ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے غزہ کے سب سے بڑے شہر غزہ سٹی کو تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اسرائیل نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہاں کوئی قحط ہے۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ رپورٹ ’’حماس کے جھوٹ پر مبنی ہے، جسے مفادات رکھنے والی تنظیموں کے ذریعے پھیلایا گیا ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ ماہرین کی روم میں قائم ایک تنظیم آئی پی سی نے ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ گورنریٹ میں پانچ لاکھ لوگ قحط سے متاثر ہیں، جس میں غزہ شہر سمیت فلسطین کا 20 فیصد علاقہ شامل ہے۔
اسرائیل بین الاقوامی سطح پر شدید ردِ عمل کے باوجود غزہ شہر پر نیا حملہ شروع کرنے کے منصوبے پر ڈٹ گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے حماس کو شکست دینے میں مدد ملے گی۔
آئی پی سی نے پیش گوئی کی ہے کہ قحط ستمبر کے آخر تک دیر البلح اور خان یونس کے علاقوں تک پھیل جائے گا، یعنی غزہ پٹی کا دو تہائی حصہ شامل ہو گا۔
آئی پی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’22 مہینوں کے مسلسل تنازع کے بعد، غزہ پٹی میں پانچ لاکھ سے زائد لوگ بھوک، بے بسی اور موت جیسی تباہ کن صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
رپورٹ کے مطابق ستمبر کے آخر تک توقع ہے کہ 614,000 لوگ اسی طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی اور اگست کے درمیان صورتحال میں آنے والی ابتری سب سے شدید تھی۔
غزہ کو بھوکا رکھنا ’جنگی جرم‘ ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ
اسرائیل کی طرف سے غزہ میں ہیومینیٹیرین امداد نہ پہنچانے دینے پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک جنگی جرم ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر تُرک کے مطابق غزہ میں ہونے والی اموات ’’جان بوجھ کر قتل کے جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا، ’’ہم اس صورتحال کو اسی طرح استثنیٰ کے ساتھ جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
گوٹیرش نے مطالبہ کیا کہ ’’فوری طور پر جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تک مکمل رسائی کی ضرورت ہے۔‘‘
ایران اور یورپی طاقتوں کے مابین جوہری پروگرام پر بات چیت
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی آج اپنے فرانسیسی، برطانوی اور جرمن ہم منصبوں کے ساتھ ایک مشترکہ ٹیلی فون کال پر جوہری مذاکرات اور پابندیوں پر بات چیت کریں گے۔ یہ بات ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے رپورٹ کی ہے۔
خیال رہے کہ ان تین یورپی طاقتوں نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آتا تو وہ ’’اسنیپ بیک‘‘ میکنزم کے تحت ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں گی۔
امریکہ سمیت ان ممالک کا دعویٰ ہے کہ ایران ممکنہ طور پر اپنے جوہری پروگرام کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ایران ایسے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے کہا ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کے قریب نہیں ہے اور امریکی قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبّارڈ نے مارچ میں گواہی دی تھی کہ انٹیلی جنس حکام کو ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار کی طرف بڑھنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے کہا کہ عراقچی اور برطانوی و یورپی وزرائے خارجہ اسنیپ بیک میکنزم کو شروع کرنے پر بات کریں گے۔
تہران نے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات معطل کر دیے تھے، جب امریکہ اور اسرائیل نے جون میں اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا۔
اس کے بعد سے آئی اے ای اے کے انسپکٹرز ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے، باوجود اس کے کہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا تھا کہ معائنہ ضروری ہے۔
ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے کہا کہ ایک ایرانی وفد جمعے کو ویانا کا سفر کرے گا تاکہ آئی اے ای اے کے عہدیداروں سے ملاقات کر سکے۔ اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
حماس غیر مسلح نہ ہوئی اور یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو غزہ شہر کو تباہ کر دیں گے، اسرائیل
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ اگر حماس غیر مسلح نہیں ہوتی، علاقے میں موجود تمام یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی اور اسرائیل کی شرائط پر جنگ ختم نہیں کرتی تو اسرائیل غزہ شہر کو تباہ کر دے گا۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’’جلد ہی، غزہ میں حماس کے قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کے سروں پر جہنم کے دروازے کھل جائیں گے، جب تک کہ وہ جنگ ختم کرنے کے لیے اسرائیل کی شرائط، بالخصوص تمام یرغمالیوں کی رہائی اور ان کے غیر مسلح ہونے پر رضامند نہیں ہو جاتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر وہ راضی نہیں ہوتے تو حماس کا دارالحکومت غزہ سٹی، رفح اور بیت حنون بن جائے گا۔‘‘ یہ حوالہ غزہ کے دو شہروں کا ہے، جو اسرائیلی آپریشنز کے دوران بڑے پیمانے پر تباہ کر دیے گئے ہیں۔
یہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ انہوں نے جمعرات کی شام غزہ میں موجود تمام باقی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری مذاکرات کا حکم دیا ہے۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش غزہ شہر پر قبضہ کرنے اور حماس کے گڑھ کو تباہ کرنے کے آپریشن کے ساتھ ساتھ چلے گی۔
اس ہفتے کے آغاز میں اسرائیلی وزارت دفاع نے غزہ شہر پر قبضہ کرنے میں مدد کے لیے تقریباً 60,000 ریزروسٹس کو بلانے کی اجازت دی تھی۔
نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ’’یہ دونوں معاملات… حماس کو شکست دینا اور ہمارے تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا … ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مذاکرات کے اگلے مرحلے کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
خیال رہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک کئی دنوں سے جنگ بندی کی تازہ ترین تجویز پر اسرائیل کے سرکاری جواب کا انتظار کر رہے ہیں، جسے حماس نے اس ہفتے کے شروع میں قبول کر لیا تھا۔
فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ نیا معاہدہ مرحلہ وار یرغمالیوں کی رہائی پر مشتمل ہے، جبکہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ کسی بھی معاہدے میں تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے۔
غزہ شہر پر قبضہ کرنے اور لڑائی کو وسعت دینے کے اسرائیل کے منصوبوں نے بین الاقوامی سطح پر اور اندرون ملک بھی مخالفت کو جنم دیا ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے اندر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔ اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق حماس کے اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 1,219 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اقوام متحدہ اور حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل کے حملوں میں 62,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔