اقتصادی شعبے میں انسانی حقوق کا تحفظ، ٹھوس پیش رفت کا فقدان
10 دسمبر 2012معیشت اور کاروباری اداروں سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب جان رگّی کہتے ہیں کہ آج کے دور میں انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنانا اقتصادی شعبے میں انسانی حقوق کا تحفظ کیے بغیر ممکن نہیں رہا۔ عالمی ادارے کے یہی مندوب اقوام متحدہ کے ان ضابطوں کے مرکزی مصنف بھی ہیں، جن کا مقصد اقتصادی عالمگیریت کے دور میں کارکنوں کے انسانی حقوق کے بہتر تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
آج عالمی سطح پر فعال کاروباری اداروں کے حقوق میں بہت توسیع آ چکی ہے، جس میں سرمایہ کاری اور کاپی رائٹس کے تحفظ کے لیے کی جانے والی قانونی سازی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جان رگّی کا کہنا ہے کہ مسلسل بدلتے ہوئے اقتصادی حالات میں ابھی تک انسانی حقوق کے تحفظ کے شعبے میں اتنی پیش رفت اور ترقی نظر نہیں آتی جتنی ممکن تھی۔
اقوام متحدہ کے معیشت اور انسانی حقوق سے متعلق ضابطوں میں مرکزی بات یہ کہی گئی ہے کہ اس شعبے میں انسانی حقوق کا تحفظ بنیادی طور پر ریاستوں اور ان کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ساتھ ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ کاروباری اداروں کو بھی حقوق انسانی کے بین الاقوامی معیارات کا احترام کرنا ہو گا، لیکن اس حوالے سے صرف عالمی معیارات کا ہی نہیں بلکہ قومی سطحوں پر قوانین اور شرائط کار کا بھی۔
یہ بات اقتصادی شعبے میں انسانی حقوق کے ضابطوں کے زمرے میں سب سے پہلے آتی ہے کہ کاروباری اور پیداواری اداروں کو اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان کی ذمہ داریوں کے دائرہء کار میں نہ تو کسی سے غلامی کروائی جائے، نہ غلامی جیسے حالات ہوں، نہ بچوں سے مشقت کرائی جائے اور نہ ہی ایسے دیگر طریقوں پر عمل کیا جائے جن کا مقصد کسی بھی عمر کے انسانوں کا اقتصادی استحصال ہو۔
اس کے علاوہ تمام کاروباری اور پیداواری ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ وہ جملہ بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کے لیے ایسی شرائط کار کو یقینی بنائیں جو محفوظ ہوں اور انسانی زندگی کے وقار سے ہم آہنگ ہوں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب John Ruggie کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک یا علاقے میں اقتصادی شعبے میں کارکنوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو یہ متعلقہ کاروباری یا پیداواری اداروں اور حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مل کر اس صورت حال کا تدارک کریں۔
کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے نے اس بارے میں جو ضوابط جون 2011ء میں منظور کیے تھے، ان سے متعلق تمام تر ذمے داریاں صرف ان کی منظوری سے ہی پوری نہیں ہو گئیں بلکہ ان پر ٹھوس اور عمومی حد تک عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ یہ عملدرآمد ابھی تک زیادہ واضح، ٹھوس یا تسلی بخش نہیں ہے۔
A. Zumach, mm / A. Scherle, ij