اقتصادی بحران: یورپ میں شرح پیدائش میں کمی
10 جولائی 2013یہ تحقیق شمال مشرقی جرمنی کے شہر روسٹوک میں مردم شماری کے لیے قائم ایک تحقیقی ادارے ’میکس پلانک‘ نے کروائی۔ اس تحقیق کو مرتب کرنے والوں میں سے ایک مشائیلا کرائن فیلڈ کے مطابق، ’’سن 2008ء میں شروع ہونے والے معاشی بحران نے یورپ میں بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کو جیسے روک دیا ہو۔‘‘
شرح پیدائش میں کمی کے اس نئے رجحان کے واضح اثرات سب سے زیادہ جنوبی یورپی ممالک میں دیکھے گئے اور اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں اسپین، کروشیا، ہنگری، آئرلینڈ اور لیٹویا شامل ہیں۔
ادارے نے اپنی تحقیق کے دوران دیکھا کہ پیدائش میں کمی کے اس رجحان کا سب سے زیادہ اثر ایسے نوجوانوں نے لیا، جن کی عمریں پچیس برس کے لگ بھگ تھیں۔ ان نوجوان جوڑوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے اجتناب کیا۔
اس تحقیق کے دوران جس حقیقت کو جاننے کی کوشش کی گئی، وہ تھی، اقتصادی حالات کا شرح پیدائش پر اثر۔ اس دوران یہ بات واضح طور پر نظر آئی کہ برے معاشی حالات شرح پیدائش کو واضح طور پر متاثر کرتے ہیں۔ تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق اگر یورپ میں شرح بے روزگاری میں ایک فیصد اضافہ ہو تو پورے خطے میں 20 سے 24 سال کی خواتین کے ہاں بچے پیدا کرنے شرح میں 0.1 فیصد کمی واقع ہو جاتی ہے جبکہ جنوبی یورپ میں یہ کمی اس سے بھی زیادہ یعنی 0.3 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
اس جائزے کے مطابق کم بچے پیدا کرنے کے رجحان کے سب سے زیادہ اثرات کسی بھی جوڑے کے پہلے بچے کے حوالے سے نظر آ رہے ہیں۔ اس جائزے کے مرتبین میں شامل مشائیلا کرائن فیلڈ کہتی ہیں:’’اب نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک کنبے کی بنیاد رکھنے کے منصوبوں پر آسانی سے نظر ثانی کر رہے ہیں۔‘‘
آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ساتھ جرمنی بھی ان ملکوں میں شامل ہے، جہاں کی روزگار کی منڈیوں پر اقتصادی بحران نے زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں شرح پیدائش میں بھی کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جرمنی میں شرح پیدائش 1.4 بچے فی خاتون ہی کے آس پاس جا رہی ہے۔
اس کے برعکس چیک ری پبلک، پولینڈ، برطانیہ اور اٹلی میں شرح پیدائش میں ہونے والا اضافہ اقتصادی بحران کی وجہ سے رک سا گیا ہے۔