طالبان حکومت ملکی فضائی حدود سے ماہانہ کروڑوں کمانے لگی
4 ستمبر 2025افغانستان کی فضائی حدودطالبان حکومت کے لیے ایک نئی اور اہم آمدنی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان رواں سال جون میں جھڑپوں سے مشرقِ وسطیٰ کی فضائی راہیں بند ہونے کے بعد، عالمی فضائی کمپنیوں نے افغانستان کا فضائی راستہ اپنانا شروع کیا۔ یہاں سے گزرنے پر فی پرواز 700 ڈالر فیس لی جا رہی ہے، جس سے طالبان انتظامیہ کو ماہانہ کروڑوں روپے حاصل ہو رہے ہیں۔
پس منظر اور اعداد و شمار
فضائی پروازوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ فلائٹ ریڈار24 کے مطابق مئی میں افغانستان کی فضائی حدود سے یومیہ اوسطاً 50 پروازیں گزرتی تھیں۔ لیکن جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد یہ تعداد بڑھ کر 280 تک جا پہنچی۔ اب بھی روزانہ دو سو سے زائد پروازیں افغانستان کے اوپر سے گزرتی ہیں۔ اس حساب سے طالبان حکومت کو ہر ماہ تقریباً 4.2 ملین ڈالر حاصل ہو رہے ہیں۔
اگرچہ افغان حکام نے اس آمدن کے حجم یا طریقہ کار پر کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا تاہم بین الاقوامی ماہرین کے مطابق یہ طالبان انتظامیہ کے لیے قیمتی مالی سہارا ہے، جو پابندیوں اور منجمد اثاثوں کے باعث شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔
انسانی بحران اور معیشت
افغانستان میں اس وقت شدید معاشی بحران اور انسانی المیہ جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ملک کی 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم آمدن پر زندگی گزار رہی ہے۔ نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح تقریباً ہر چار میں سے ایک ہے جبکہ لاکھوں افغان ایران اور پاکستان سے زبردستی واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ ایسے حالات میں فضائی فیس سے حاصل ہونے والی آمدن اگرچہ بڑی رقم نہیں لیکن طالبان کے لیے انتہائی قیمتی ہے۔
ایئر لائنز اور خطرات
2023 میں امریکی فضائی اتھارٹی نے افغانستان کی فضائی حدود کے استعمال پر عائد پابندیاں نرم کی تھیں، جس کے بعد بین الاقوامی ایئر لائنز نے افغانستان کے اوپر سے پروازیں شروع کیں۔ ترکش ائیرلائنز، فلائی دبئی اور ایئر عربیہ افغان شہروں سے روزانہ پروازیں چلاتی ہیں جبکہ ایئر فرانس، سنگاپور ایئر لائنز، ایئر کینیڈا اور روس کی ایئرفلوٹ جیسی بڑی کمپنیاں افغانستان کی فضائی حدود استعمال کر رہی ہیں۔
تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگرچہ پرواز کے دوران افغانستان کی فضائی حدود کو نسبتاً محفوظ سمجھا جا رہا ہے لیکن کسی ہنگامی صورتِ حال میں افغانستان لینڈنگ کے لیے سازگار ملک نہیں۔ نہ صرف اس لیے کہ یہاں کے ایئرپورٹس پر تکنیکی سہولیات اور اسپیئر پارٹس کا فقدان ہے بلکہ صحت کے نظام کی کمزوری بھی کسی ہنگامی صورتحال کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
سیاسی پہلو
سابق افغان نائب وزیر صنعت و تجارت سلیمان بن شاہ کے مطابق فضائی آمدن طالبان کو صرف مالی سہارا ہی نہیں دے رہی بلکہ ان کی حکومتی ساکھ کو بھی مضبوط بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''یہ آمدن طالبان کو ایک فعال حکومت کے طور پر پیش کرنے میں مدد دیتی ہے، چاہے دنیا نے انہیں باضابطہ طور پر تسلیم نہ کیا ہو۔‘‘
اب تک صرف روس نےطالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیا ہے جبکہ باقی دنیا احتیاط کے ساتھ تعلقات قائم کر رہی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق جیسے جیسے مزید فضائی کمپنیاں افغانستان کی فیس ادا کر کے گزرنے لگیں گی، طالبان کی ''حکومتی نارملائزیشن‘‘ کا تاثر دنیا میں بڑھ سکتا ہے۔
ادائیگی کا طریقہ کار
ایئرلائنز طالبان کو فیس کس طریقے سے ادا کرتی ہیں، اس پر کمپنیوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق یہ ادائیگیاں براہِ راست نہیں بلکہ تیسری پارٹی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ دبئی کی جی اے اے سی ہولڈنگ نامی کمپنی افغانستان کے ایئرپورٹس کا انتظام چلاتی ہے اور ممکنہ طور پر انہی کے ذریعے فیس وصول کی جاتی ہے۔
افغانستان کے آسمان طالبان حکومت کے لیے مالی سہارا ضرور فراہم کر رہے ہیں، لیکن ماہرین کے مطابق یہ آمدن بحران زدہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تاہم سیاسی طور پر یہ طالبان کو تقویت دے رہی ہے اور انہیں عالمی منظرنامے میں ایک ''قابلِ اعتبار ریاستی ڈھانچے‘‘ کے طور پر پیش کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی