’افغان پریمیئر لیگ‘ نے عوام کے دل جیت لیے
22 اکتوبر 2012افغان پریمیئر لیگ میں آٹھ فٹ بال ٹیموں نے حصہ لیا۔ ہر ٹیم کے تین کھلاڑیوں کا انتخاب ناظرین کی جانب سے براہ راست کیا گیا۔ کابل میں ہونے والے افغان پریمیئر لیگ کے مقابلے افغانستان کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ چار ہفتوں تک کابل میں صرف فٹ بال کا جوش و خروش ہی دکھائی دے رہا تھا۔ اس دوران ان مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں اور کسی اسٹیڈیم کو حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ملک میں اس پہلی قومی فٹ بال لیگ نے عوام کے دل جیت لیے اور شائقین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہوئے کھلاڑیوں کی ہمت بڑھائی۔ پریمیئر لیگ جیتنے کا سہرا ہرات کی ٹیم کے سر گیا۔
ہرات کی ٹیم کے23 سالہ کھلاڑی فیاض کہتے ہیں کہ اس ٹورنامنٹ کے افغانستان کے حالات پر مثبت اثرات پڑے ہیں۔ ’’ میرے خیال میں، فٹ بال کے ذریعے افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد کی سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ریڈیو سے کمنٹری براہ راست نشر کی گئی اور اسی طرح ٹیلی وژن پر میچز دکھائے گئے۔ شائقین کی جانب سے بہت ہی زبردست انداز میں پذیرائی کی گئی۔ اب والدین بچوں کو فٹ بال کھیلنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ جو کوئی کھیلوں میں دلچسپی لیتا ہے، اس کے پاس دہشت گردی کے لیے وقت ہوتا ہی نہیں ‘‘۔
افغان پریمیئر لیگ میں حصہ لینے والی ٹیمیں فی الحال بہت اعلیٰ معیار کا کھیل پیش نہیں کر رہیں۔ لیکن اس کے باوجود انتظامیہ پر امید ہے کہ لیگ میں شامل تمام آٹھ ٹیمیں جلد ہی مزید بہتر انداز میں کھیل پیش کر سکیں گی۔ لیگ کے سربراہ شفیق گوہری جرمنی میں جلا وطنی کی زندگی گزار چکے ہیں۔ اس وقت وہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کی ایک بہت بڑی کمپنی ’مُوبی‘ سے منسلک ہیں۔ موبی افغان پریمیئر لیگ کو سرمایہ فراہم کرنے والے دو بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ گوہری کہتے ہیں کہ افغانستان میں فٹ بال کی ابتداء ہو گئی ہے۔ ’’ یہ کھیل منعقد کرانے کا بہت مزہ آیا۔ میں صورتحال سے بہت متاثر بھی ہوں اور مطمئن بھی۔ میرے خیال میں بیرونی دنیا میں افغانستان کے بارے میں منفی سوچ پائی جاتی ہے حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ بےشک مسائل موجود ہیں، حالات غیر محفوظ ہیں لیکن دوسری جانب ترقی بھی ہو رہی ہے۔ مثبت تبدیلیوں کی فتح ہو چکی ہے لیکن پھر بھی منفی خبریں ہی مرکز نگاہ بنتی ہیں‘‘۔
میچز کے دوران کابل کے اسٹیڈیم کے باہر اور اندر سخت نگرانی تھی۔ پولیس اہلکار کلاشنکوف رائفلوں کے ساتھ موجود تھے جبکہ اسٹیڈیم کے اندر فیملی انکلوژر کی رکھوالی کے لیے بھی خصوصی گارڈز متعین تھے، تاکہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ نہ بیٹھ پائیں۔ اس دوران ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ قبائلی عمائدین، سیاستدان اور سرداروں نے میچز کے درمیان اسٹیڈیم میں داخل ہو کر کھلاڑیوں پر پیسے نچھاور کیے۔ اس کے علاو ٹیلی وژن کاسٹنگ شو کے ذریعے ہر ٹیم کے تین کھلاڑیوں کو منتخب کرنا بھی ایک انوکھی روایت ہے، دنیا بھر میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔
مدینہ نامی ایک لڑکی نے´کابل کے اسٹیڈیم کے فیملی انکلوژر میں بیٹھ کر میچز دیکھے۔ افغانستان میں مزید فٹ بال کھیلا جانا چاہیے اور ٹیمیں بننی چاہیں۔’’ ہمارے معاشرے میں مختلف قوموں کے مابین پایا جانے والا تناؤ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن ایک ٹیم میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔ کھیلوں کی مدد سے ہمیں خود کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملے گا ‘‘۔
انتظامیہ کو امید ہے کہ افغان پریمیئر لیگ اگلے برس مزید تبدیلیوں کے ساتھ ایک نئے انداز میں کھیلی جائے گی اور اسی طرح فٹ بال فینز نے بھی اگلے لیگ مقابلوں کا انتظار کرنا شروع کر دیا ہے۔
S. Petersmann / ai / mm