افغان ملیشیا کمانڈر قیصاری کی گرفتاری کی ناکام کارروائی
16 دسمبر 2019افغان شہر مزار شریف کے حکومتی اہلکار ذبیح اللہ کاکڑ نے خبر رساں ادارے ( ڈی پی اے) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد نظام الدین قیصاری کے کارکن تھے تاہم قیصاری اس دوران بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ذبیح اللہ کاکڑ نے مزید بتایا کہ جیسے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قیصاری کے مکان پر چھاپہ مارا تو وہاں پر موجود قیصاری کے ساتھیوں اور محافظوں نے فائرنگ شروع کر دی اور راکٹ بھی داغے۔ اس موقع پر ہیلی کاپٹر بھی قیصاری کے مکان کے اوپر گشت کرتے رہے۔ اس کے بعد افغان دستوں نے اتوار کی دوپہر اس مکان پر فضائی حملے بھی کیے۔ نظام الدین قیصاری نے بعد ازاں شمشاد نامی ایک مقامی نشریاتی ادارے کو بتایا، '' میں مرتے دم تک خود کو حکام کے حوالے نہیں کروں گا‘‘۔ انہوں نے اس کارروائی کو ایک سیاسی سازش قرار دیا۔
قیصاری حکومت کے حامی ایک کمانڈر ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ زمین پر قبضوں، عام شہریوں کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی طریقے سے مسلح افراد کی بھرتی جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ قیصاری کو گرفتار کرنے کے لیے ہفتے کے روز یہ کارروائی کی گئی تھی اور اس میں سلامتی کے متعدد مختلف اداروں کے اہلکاروں سمیت خصوصی دستے بھی شامل تھے۔
قیصاری کو افغان فوج کے ساتھ ہونے والے ایک تنازعے کے بعد گزشتہ برس بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ وہ سلامتی کے دستوں کے ساتھ ہونے والے ایک اہم اجلاس میں شریک تھے اور اس دوران انہوں نے دیگر شرکاء کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس گرفتاری کے بعد فریاب صوبے میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے تھے۔ بعد ازاں انہیں خصوصی شرائط کے تحت 2018ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔
صوبہ بلخ کی پولیس کے ترجمان عادل شاہ عادل نے تصدیق کی کہ یہ آپریشن اتوار کی رات دیر گئے مکمل ہوا۔ جبکہ تلاش کا کام بدستور جاری ہے۔ تاہم اس موقع پر عادل شاہ نے اس دوران ہونے والی گرفتاریوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور نہ ہی انہوں نے زخمیوں کے تعداد بتائی۔
ع ا / ع ح ( خبر رساں ادارے)