اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار
وقت اشاعت 13 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 13 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- روس جنگ بندی نہ کرے تو نئی پابندیاں لگائی جائیں، زیلنسکی
- باجوڑ میں مارٹر حملہ، دو بچے اور ان کی والدہ ہلاک
- روسی افواج کی ٹرمپ - پوٹن ملاقات سے قبل یوکرین میں تیز رفتار پیش قدمی
- غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم 123 افراد ہلاک
- جنوبی کوریا کی طاقتور ترین سابقہ خاتون اول کا جیل میں پہلا دن
- میانمار کی فوجی جیلوں میں منظم تشدد اور جنسی جرائم، اقوام متحدہ
- ایران کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مخالفت، تعاون جاری رکھنے کا اعلان
- اسرائیلی فوجی سربراہ نے غزہ پٹی پر نئے حملے کے بنیادی خاکے کی منظوری دے دی
روس جنگ بندی نہ کرے تو نئی پابندیاں لگائی جائیں، زیلنسکی
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین الاسکا میں ہونے والے اجلاس کا مرکزی موضوع فوری جنگ بندی ہونا چاہیے، اور اگر روس اس پر آمادہ نہ ہو تو اس پر نئی اور سخت پابندیاں لگنا چاہییں۔
صدر زیلنسکی نے اس موقف کا اظہار آج بروز بدھ برلن میں جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس سے قبل انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ ٹرمپ نے اس اجلاس میں واضح کیا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی ان کی ترجیح ہے اور یوکرین کے علاقائی معاملات پر بات صرف صدر زیلنسکی ہی کریں گے۔
صدر ماکروں کے مطابق صدر ٹرمپ صدر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک سہ فریقی اجلاس کی کوشش کریں گے، جس میں زیلنسکی بھی شامل ہوں، اور اسے یورپ کے کسی غیر جانبدار ملک میں منعقد کرنے کی امید ہے۔
جرمن چانسلر میرس نے ملاقات کو ’’تعمیری‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس میں اہم فیصلے ممکن ہیں، مگر یورپی اور یوکرینی سلامتی کے بنیادی مفادات کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ ان کی حکومت نے اجلاس سے قبل 30 سے زائد بین الاقوامی اتحادیوں سے بات کی ہے، مگر انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ پوٹن واقعی سنجیدگی سے قیام امن پر بات کریں گے۔ ان کے بقول، ’’روس کو منصفانہ امن پر مجبور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ کسی دھوکے سے بچا جا سکے۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پوٹن جنگ ختم کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں، مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو کچھ روس کے قبضے والے علاقے چھوڑنا پڑیں گے، جس سے یورپی اتحادیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یورپی ممالک کا موقف ہے کہ امن مذاکرات میں یوکرین کی شمولیت ضروری ہے ورنہ نتائج ماسکو کے حق میں جا سکتے ہیں۔
اطالوی جزیرے کے قریب کشتی الٹنے سے کم از کم 20 تارکین وطن ہلاک، 12 سے زائد لاپتہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور مقامی حکام کے مطابق بدھ کے روز اٹلی کے جزیرے لامپےڈوسا کے قریب بین الاقوامی سمندری پانیوں میں تقریباً 100 مہاجرین کو لے جانے والی ایک کشتی الٹ جانے سے کم از کم 20 افراد ہلاک اور 12 سے لے کر 17 تک لاپتہ ہو گئے۔
اٹلی میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان فیلیپو اونگارو کے مطابق لامپےڈوسا پہنچائے گئے 60 زندہ بچ جانے والے تارکین وطن نے بتایا کہ لیبیا سے روانہ ہوتے وقت اس کشتی پر 92 سے 97 تک افراد سوار تھے۔ حکام نے سمندر سے 20 لاشیں نکال لی ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
لامپےڈوسا کے میئر فیلیپو مانینو کے مطابق یہ حادثہ غالباً صبح کے وقت پیش آیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق رواں سال آج تک وسطی بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے کی کوشش میں اس تازہ حادثے کو شمار کیے بغیر 675 تارکین وطن ہلاک ہو چکے تھے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے پہلے چھ ماہ میں 30,060 مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن سمندری راستے سے اٹلی پہنچے، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ تعداد ہے۔
شمالی افریقہ سے جنوبی یورپ تک سفر کا یہ غیر قانونی سمندری راستہ دنیا کے سب سے خطرناک راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں اس سمندری راستے پر سفر کے دوران تقریباً 24,500 افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ہلاکتیں تیونس اور لیبیا کے ساحلوں سے روانہ ہونے والی چھوٹی کشتیوں کے حادثات کے نتیجے میں ہوئیں۔
لامپےڈوسا کے جزیرے کے قریب کشتی کا سب سے ہلاکت خیز حادثہ تین اکتوبر 2013 کو پیش آیا تھا، جب اریٹریا، صومالیہ اور گھانا سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد افراد کو لے جانے والی ایک کشتی میں آگ لگ گئی اور وہ الٹ گئی تھی، جس کے نتیجے میں کم از کم 368 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سانحے کے بعد تارکین وطن کے حوالے سے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔
باجوڑ میں مارٹر حملہ، دو بچے اور ان کی والدہ ہلاک
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شمال مغرب میں ضلع باجوڑ کے علاقے ماموند میں ایک مارٹر حملے میں دوبچے اور ان کی والدہ ہلاک ہو گئے۔ مقامی رہائشی افراد اور ہسپتال کے اہلکاروں نے بدھ کے روز ان ہلاکتوں کی اطلاع دی۔ اس علاقے میں ملکی سکیورٹی فورسز کا پاکستانی طالبان کے خلاف ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ جاری ہے۔
ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں کہ ان شہریوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار کون ہیں۔ ایک مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر نصیب گل نے بتایا کہ ہلاک شدگان میں دو بچے اور ان کی والدہ شامل ہیں۔ ایک اور مارٹر حملے میں منگل کے روز دو افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔ مقامی رہائشی محمد خالد کے مطابق ان ہلاکتوں پر مشتعل سینکڑوں مظاہرین ہلاک شدگان کی لاشیں دفنانے سے انکار کر رہے اورتحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت یا فوج کی جانب سے اس حوالے سے کوئی فوری تبصرہ موصول نہیں ہوا۔
یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا ہے، جب چند روز قبل ہی سکیورٹی فورسز نے باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کارروائی شروع کی تھی۔ صوبائی حکومت کا کہنا تھا، یہ ’’ہدفی کارروائی‘‘ قبائلی سرداروں کی اس کوشش میں ناکامی کے بعد شروع کی گئی، جس کے تحت وہ علاقے سے عسکریت پسندوں کو نکالنا چاہتے تھے۔
سرکاری اہلکاروں کے مطابق پاکستانی طالبان کے خلاف جاری کارروائی کی وجہ سے باجوڑ میں 25,000 خاندان یا تقریباً 100,000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور بدھ کو کرفیو میں نرمی کی گئی تاکہ لوگ ضروری اشیاء خرید سکیں۔ ہزاروں بے گھر افراد اس وقت سرکاری عمارات میں مقیم ہیں جبکہ دیگر محفوظ مقامات پر اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر وہاں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔
باجوڑ میں یہ کارروائی 2009 کے بعد دوسرا بڑا عسکری آپریشن ہے، جب فوج نے پاکستانی طالبان یعنی ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم چلائی تھی۔ ٹی ٹی پی اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالنے والے افغان طالبان کی قریبی اتحادی ہے۔
کئی ٹی ٹی پی رہنما اور جنگجو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں اور کھلے عام وہاں رہائش پذیر ہیں، اور بعض تو دوبارہ باجوڑ میں داخل ہو کر حملے بھی کر رہے ہیں۔
روسی افواج کی ٹرمپ - پوٹن ملاقات سے قبل یوکرین میں تیز رفتار پیش قدمی
روسی افواج مشرقی یوکرین میں تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں اور امریکی ریاست الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ملاقات سے قبل مزید علاقے پر قابض ہو گئی ہیں۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اس وقت برلن میں موجودہ ہیں، جہاں وہ پہلے یورپی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ٹرمپ کے ساتھ آن لائن مذاکرات میں شامل ہوئے تاکہ وہ الاسکا سمٹ میں یوکرین کے مفادات کا احترام یقینی بنائیں۔
اس اجلاس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر اور دیگر یورپی رہنما نیز یورپی یونین اور نیٹو کے سربراہان بھی شامل ہوئے۔
امریکی تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار کے تجزیے کے مطابق روسی فوج نے 12 اگست کو یوکرین کے 110 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 24 گھنٹوں کے دوران سب سے بڑی عسکری پیش رفت ہے۔
صدر زیلنسکی نے بتایا کہ روسی فوج نے ڈوبروپلیا کے قریب 10 کلومیٹر تک زمینی پیش قدمی کی، جبکہ روس نے دو دیہات پر قبضہ کر لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ منگل کی شب روسی فوج نے یوکرین کی طرف 49 ڈرونز اور دو بیلسٹک میزائل بھی داغے۔
یوکرین کے جنوبی علاقے خیرسون میں روسی توپ خانے اور ڈرون حملوں میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ ڈونیٹسک کے علاقے میں 1,200 افراد، جن میں 42 بچے بھی شامل تھے، جنگی محاذ سے بحفاظت نکال لیے گئے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے برلن میں اپنی آمد سے قبل کہا تھا، ’’ہمیں روس پر دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ منصفانہ امن ممکن ہو اور روس کی طرف سے دھوکہ دہی سے بچا جا سکے۔‘‘
غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، چوبیس گھنٹوں میں کم ازکم 123 افراد ہلاک
اسرائیلی فوج نے آج بروز بدھ غزہ سٹی پر شدید بمباری کی، جو غزہ پٹی کے اس علاقے پر منصوبہ بند اسرائیلی فوجی کارروائی سے قبل کی گئی ہے۔ غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتیں ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں، جب حماس نے قاہرہ میں مصری ثالثوں سے مزید مذاکرات کیے ہیں۔
گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہونے والی تازہ ہلاکتیں ایک ہفتے کے دوران اب تک ہونے والی سب سے زیادہ اموات تھیں اور انہوں نے اس تقریباً دو سالہ جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں بھی مزید اضافہ کر دیا۔ غزہ پٹی کی جنگ نے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں پر مشتمل اس علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر اپنا یہ مشورہ دوہرایا ہے کہ فلسطینی بس اپنے علاقے سے نکل جائیں۔
انہوں نے اسرائیلی ٹی وی چینل i24NEWS کو بتایا، ’’انہیں (فلسطینیوں) کو نکالا نہیں جا رہا، انہیں نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ جو بھی فلسطینیوں کی فکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کرنا چاہتا ہے، اپنے دروازے کھولے اور ہمیں نصیحت کرنا بند کرے۔‘‘
عرب ممالک اور دنیا کے کئی رہنما اس خیال پر حیران ہیں کہ غزہ پٹی کی آبادی کو بے دخل کیا جائے، جسے فلسطینی ایک اور ’’نکبہ‘‘ (مصیبت) کے مترادف قرار دیتے ہیں، جب 1948 کی جنگ کے دوران لاکھوں فلسطینی یا تو رخصتی پر مجبور ہو گئے یا پھر زبردستی نکالے گئے تھے۔
غزہ سٹی کے مشرقی علاقوں میں اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے شدید بمباری کی، رہائشیوں نے بتایا کہ زیتون اور شجاعیہ کے محلوں میں کئی گھر تباہ ہو گئے۔ الاہلی ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ زیتون میں ایک گھر پر فضائی حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی ٹینکوں نے جنوبی غزہ پٹی کے شہر خان یونس کے مشرق میں بھی کئی گھر تباہ کر دیے، جبکہ وسطی علاقے میں اسرائیلی فائرنگ سے دو مختلف واقعات میں نو امدادی کارکن ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے ان واقعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران مزید آٹھ افراد، جن میں سے تین بچے تھے، بھوک کی شدت اور غذائیت کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئے۔ اس جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک سے ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب 235 ہو گئی ہے، جن میں 106 بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیل ان اعداد و شمار سے اختلاف کرتا ہے جو حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت نے رپورٹ کیے ہیں۔
جنوبی کوریا کی طاقتور ترین سابقہ خاتون اول کا جیل میں پہلا دن
جنوبی کوریا میں کبھی طاقتور ترین سمجھی جانے والی سابقہ خاتون اول کم کیون ہی نے آج بروز بدھ جیل میں اپنا پہلا دن گزارا۔ وہ ایک ایسے ہی سیل میں رہیں گی، جیسا کہ ان کے شوہر اورسابق صدر یون سوک یول کے لیے مختص ہے، کیونکہ پراسیکیوٹرز اس جوڑے کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ انہیں ملکی دارلحکومت سیئول کے مغربی کنارے پر واقع نامبوکے حراستی مرکز منتقل کیا گیا، جو 11 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا اور ان چند جیلوں میں سے ایک ہے، جہاں خاتون سپرنٹنڈنٹ تعینات ہیں۔
عدالت نے منگل کو دیر گئے یہ کہتے ہوئے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا کہ وہ اب تک جاری تحقیقات کے دوران شواہد ضائع کر سکتی ہیں۔ ان پر رشوت، اسٹاکس کے فراڈ اور اثر و رسوخ کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔ ان کے وکلاء نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور میڈیا میں آنے والی مبینہ تحائف کی خبروں کو محض قیاس آرائی قرار دیا ہے۔
کم کیون ہی نے گزشتہ ہفتے تفتیش کے لیے پیشی پر ملک میں تشویش پیدا کرنے پر معذرت کی تھی اور خود کو ’نو باڈی‘ یعنی ’’کچھ بھی نہیں‘‘ قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان کے قید تنہائی والے سیل میں ایک چھوٹی میز اور فرش پر بچھانے کے لیے گدا رکھا ہوا ہے۔ سابقہ خاتون اول کو مشترکہ شاور روم تک باقی قیدیوں سے الگ اوقات میں رسائی حاصل ہو گی اور انہیں اتوار کے علاوہ روزانہ ایک گھنٹے کی بیرونی ورزش کی اجازت بھی ہو گی۔
یہ اس سابقہ خاتون اول کے لیے جیل کا پہلا تجربہ ہے، لیکن ان کے شوہر اور سابق صدر یون سک یول پہلے ہی تقریباً 100 دن سے قید میں ہیں۔ وہ مارشل لاء نافذ کرنے کی ناکام کوشش پر بغاوت کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور دارالحکومت کے جنوب میں واقع سیئول حراستی مرکز میں قید ہیں۔
میانمار کی فوجی جیلوں میں منظم تشدد اور جنسی جرائم، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ماہرین نے کہا ہے کہ میانمار میں حکمران فوجی جنتا کے زیر انتظام حراستی مراکز میں منظم تشدد، بجلی کے جھٹکے، مار پیٹ، اجتماعی زیادتی اور جنسی غلامی جیسے سنگین جرائم ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق قیدیوں کے جنسی اعضا کو سگریٹوں یا جلتے ہوئے آلات سے جلایا گیا اور پلائرز کے ساتھ ان کے ناخن نوچے گئے۔
میانمار میں 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد سے خانہ جنگی جاری ہے، جس میں فوج جمہوریت پسند گوریلا جنگجوؤں اور مسلح نسلی گروپوں سے لڑ رہی ہے۔ اس دوران تقریباً 30 ہزار افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی نظام برائے میانمار (IIMM) کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو بھی حراست میں لیا گیا، جن کی عمریں دو سے لے کر 17 سال تک تھیں، اور ان میں سے کچھ کو ان کے والدین کی جگہ پکڑا گیا۔ کئی بچوں کو تشدد، بدسلوکی اور جنسی و صنفی بنیادوں پر جرائم کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے سربراہ نکولس کومجیان نے کہا کہ مظالم کی شدت اور تواتر میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ملزمان کی شناخت میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ان کے بقول مقصد یہ ہے کہ ایک دن یہ ملزمان عدالت میں جواب دہ ہوں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر پہلے ہی میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ ہلینگ کے وارنٹ گرفتاری کے اجرا کی درخواست کر چکے ہیں، جو 2017 میں روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ مظالم سے متعلق ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میانمار کی خانہ جنگی میں ملوث تمام فریقوں پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں اور حزب مخالف کے گروپوں کی جانب سے بھی قیدیوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے شواہد ملے ہیں۔
روس پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے، صدر زیلنسکی
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کو مل کر روس پر دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ اسے منصفانہ امن پر آمادہ کیا جا سکے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ یوکرین اور اس کے شراکت داروں کے تجربے سے سیکھ کر روس کے کسی بھی دھوکے سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ اس وقت تک ایسی کوئی علامات نہیں ، جن سے ظاہر ہو سکے کہ روس جنگ ختم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
صدر زیلنسکی بدھ کو یورپی رہنماؤں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ورچوئل مذاکرات کے لیے اس وقت برلن میں موجود ہیں۔ یہ ملاقات امریکی صدر کی ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ سربراہی اجلاس سے قبل ہو رہی ہے۔
ایران کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مخالفت، تعاون جاری رکھنے کا اعلان
ایران کی اعلیٰ سلامتی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی نے کہا ہے کہ لبنانی حکومت کی جانب سے ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوج کو منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیے جانے کے بعد بھی تہران حکومت اس گروپ کی حمایت جاری رکھے گی۔
علی لاریجانی نے یہ بات آج بدھ کے روز بیروت میں کہی۔ ان کا لبنان کا یہ دورہ اس وقت عمل میں آیا، جب ایران پہلے ہی اس لبنانی حکومتی منصوبے کی مخالفت کر چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ گزشتہ سال کی جنگ سے قبل حزب اللہ کو لبنانی فوج سے زیادہ مسلح تصور کیا جاتا تھا۔
بیروت پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو میں لاریجانی نے کہا، ’’اگر لبنانی عوام تکلیف میں ہیں تو ہم ایران میں بھی اس درد کو محسوس کریں گے اور ہر حال میں لبنان کے عزیز عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘
علی لاریجانی کے استقبال کے لیے حزب اللہ کے درجنوں حامی بیروت میں ایئر پورٹ روڈ پر جمع ہوئے۔ وہ مختصر وقت کے لیے گاڑی سے باہر نکلے اور ان سے ملاقات کی جبکہ ان کے حامی نعرے لگاتے رہے۔
لبنان میں لاریجانی کی ملاقات صدر جوزف عون، وزیر اعظم نواف سلام اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری سے طے ہے، جو حزب اللہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشمکش میں ایران کو متعدد دھچکے لگے ہیں، جن میں جون میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی 12 روزہ کھلی جنگ بھی شامل ہے۔
نومبر 2024 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد سے حزب اللہ کی طاقت کم ہوئی ہے اور امریکہ کی حمایت یافتہ نئی لبنانی حکومت نے اسے مزید محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
حزب اللہ ایران کے نام نہاد ’’محورِ مزاحمت‘‘ کا حصہ ہے، جس میں غزہ پٹی میں حماس اور یمن میں حوثی باغی بھی شامل ہیں، جو سب اسرائیل کی مخالفت میں متحد ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں شام کے صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، جو ایران اور حزب اللہ کے درمیان اسلحے کی ترسیل کا اہم راستہ فراہم کرتے تھے، لبنان تک حزب اللہ کے لیے عسکری رسد کا یہ راستہ منقطع ہو چکا ہے۔
ایران لبنانی حکومت کے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے فیصلے کی سخت مخالفت کر چکا ہے، جبکہ حزب اللہ نے بیروت حکومت کے اس فیصلے کو ’’سنگین گناہ‘‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار
اسرائیلی فوج نے آج 13 اگست بروز بدھ کہا کہ اس کے چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے غزہ پٹی پر حملے کے منصوبے کے بنیادی تصور کی منظوری دے دی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جلد ایک نیا آپریشن شروع کرے گا اور غزہ سٹی پر قبضہ کر لے گا، جو اس نے اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز کے فوراً بعد اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا لیکن بعد میں وہ وہاں سے نکل بھی گیا تھا۔