اسرائیلی حملے میں غزہ کی ایک صحافی پورے خاندان سمیت ہلاک
وقت اشاعت 23 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 23 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
* ’غزہ کی ہولناکیوں‘ کے سائے میں اقوام متحدہ کی امن کی اپیل
* غزہ میں اسرائیلی حملے، خواتین اور بچوں سمیت 21 افراد ہلاک
* قحط اور موت کے سائے میں امن کی تلاش، غزہ میں جنگ بندی ممکن؟
* بھوک، پیاس اور جنگ: غزہ میں صحافی خود خبر بننے لگے
* فلسطینی امید و یاس کے بیچ پھنسے ہوئے، بین الاقوامی تنظیمیں
* اسرائیلی حملے میں غزہ کی ایک صحافی پورے خاندان سمیت ہلاک
اسرائیلی حملے میں غزہ کی ایک صحافی پورے خاندان سمیت ہلاک
غزہ شہر میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ایک خاتون صحافی ولا الجابری، ان کے شوہر اور پانچ بچے مارے گئے۔ یہ خاندان اپنے گھر میں سو رہا تھا۔
منگل کی شب غزہ میں فری لانس صحافی ولا الجابری کی فیملی اپنے گھر میں سو رہی تھی کہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنی اور پورا خاندان ہلاک ہو گیا۔
غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق الشعیر خاندان کے یہ ارکان ان 100 سے زائد افراد میں شامل تھے، جو گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں یا فائرنگ میں مارے گئے۔
بدھ کی صبح ان کی لاشیں ان کے تباہ شدہ گھر کے باہر سفید کفنوں میں لپٹی ہوئی تھیں، جن پر قلم سے ان کے نام لکھے گئے تھے۔ کفنوں سے خون رس رہا تھا، اور زمین پر خون کے سرخ دھبے پھیلے ہوئے تھے۔
عمرو الشعیر، جو ہلاک ہونے والے بچوں میں سے ایک کا کزن ہے، نےبتایا، ’’یہ میرا کزن تھا، صرف 10 سال کا۔ ہم نے اسے ملبے سے نکالا۔‘‘
ایمان الشعیر ہلاک ہونے والے خاندان کی ایک اور قریبی رشتہ دار ہیں، انہوں نے کہا، ’’بم گرنے سے پہلے بچوں نے کچھ نہیں کھایا تھا، وہ بھوکے سو گئے تھے۔‘‘
اسرائیلی فوج نے اس مخصوص حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم ایک بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ روز غزہ بھر میں 120 اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں ’’دہشت گردوں کے سیل، سرنگیں، بوبی ٹریپ والی عمارتیں اور دیگر عسکری ڈھانچے‘‘ شامل تھے۔
فلسطینی امید و یاس کے بیچ پھنسے ہوئے، بین الاقوامی تنظیمیں
درجنوں امدادی تنظیموں نے شکایت کی ہے کہ ٹنوں کے حساب سے امدادی سامان سرحدوں پر اور اندرون غزہ گوداموں میں پڑا ہے، مگر انہیں اس کی تقسیم کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
مجموعی طور پر 111 بین الاقوامی امدادی اور فلاحی تنظیموں، بشمول ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز، سیو دی چلڈرن اور آکسفیم، کی طرف سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ پٹی کے ’’فلسطینی امید اور مایوسی کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں، اور ان کے لیے ہر دن اور بھی بدتر حالات لے کر آتا ہے۔‘‘
ان تنظیموں کی طرف سے مزید کہا گیا، ’’یہ صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اذیت بھی ہے۔ فلسطینی اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘‘ ان اداروں نے کہا، ’’انسان دوستی کا نظام جھوٹے وعدوں پر نہیں چل سکتا۔ انسان دوست تنظیمیں ٹائم لائنز کی مسلسل تبدیلی یا ایسے سیاسی وعدوں کا انتظار نہیں کر سکتیں جو امداد کی فراہمی میں ناکام رہیں۔‘‘
گزشتہ 21 ماہ سے جاری جنگ کے باعث غزہ پٹی میں دو ملین سے زائد افراد کو شدید غذائی قلت اور بنیادی اشیائے ضرورت کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ اسرائیل پر دباؤ ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کے لیے امدا دکی ترسیل کو ممکن بنائے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ایسا لازمی طور پر کرنا چاہیے لیکن وہ کر نہیں رہا۔ اس کے برعکس اسرائیل اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ غزہ پٹی کو امداد کی ترسیل روک رہا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 950 ٹرکوں کا سامان غزہ پٹی میں موجود ہے، جسے بین الاقوامی ادارے تقسیم نہیں کر پا رہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ غزہ شہر اور شمالی غزہ پٹی میں آپریشن کر رہی ہے اور یہ کہ اس نے وہاں درجنوں ’’دہشت گردانہ اہداف‘‘ کو نشانہ بنایا ہے۔
دریں اثناء غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) نے کہا کہ اقوام متحدہ کو، جو اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتا ہے، ’’صلاحیت اور آپریشنل مسائل کا سامنا ہے‘‘ اور اس نے زندگیوں کو بچانے والی امداد کی فراہمی کے لیے ’’مزید تعاون‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے ادارے COGAT نے، جو فلسطینی علاقوں میں شہری امور کی نگرانی کرتا ہے، کہا ہے کہ حال ہی میں تقریباً 4,500 ٹرک غزہ پٹی میں داخل ہوئے، جن پر آٹا، بچوں کا کھانا اور بچوں کے لیے زیادہ کیلوریز والی غذا لدی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ مہینے بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی طرف سے ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی وصولی میں نمایاں کمی‘‘ ہوئی۔ مزید کہا گیا، ’’امداد کی تقسیم کے لیے دستیابی میں یہی کمی غزہ پٹی میں اس امداد کے مسلسل بہاؤ کو برقرار رکھنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘
خبر کی تلاش یا زندگی کی جدوجہد؟ غزہ میں صحافیوں کا امتحان
غزہ کی تباہ حال سڑکیں ناقابلِ عبور ہو چکی ہیں، ایندھن نایاب ہے اور خوراک و پانی کی شدید قلت نے زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ ایسے میں باہر کی دنیا تک خبریں پہنچانا صحافیوں کے لیے بہت بڑا امتحان بن چُکا ہے۔
اے ایف پی کے ایک ویڈیو جرنلسٹ یوسف حسونہ روزانہ میلوں پیدل چل کر جنگ کی ہولناکیوں کو دنیا کے سامنے لانے میں مصروف ہیں۔
48 سالہ حسونہ روزانہ 14 سے 15 کلومیٹر کی مسافت طے کرتے ہیں، بعض اوقات یہ فاصلہ 25 کلومیٹر تک جا پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں روزانہ شدید گرمی میں گھنٹوں پیدل چلتا ہوں تاکہ خبر تک پہنچ سکوں۔‘‘
جنگ میں صحافت کی قیمت
21 ماہ سے جاری اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ نے غزہ کی بیشتر آبادی کو بے گھر کر دیا ہے، بنیادی ضروریات زندگی ناپید ہو چکی ہیں اور یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
قحط، خوف اور صحافت
غزہ میں خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
۔ دال جو پہلے تین شیکل میں دستیاب تھی، اب 80 شیکل میں ملتی ہے۔
۔ چاول کی قیمت 20 گنا بڑھ چکی ہے۔
۔ پانی کے لیے بچے چھ سے سات گھنٹے قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔
حسونہ کا وزن 110 کلوگرام سے کم ہو کر 65-70 کلوگرام رہ گیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں تھکن اور چہرے پر فاقہ کشی کے آثار نمایاں ہیں۔
خطرات صرف بمباری سے نہیں
حسونہ کے مطابق، بعض فلسطینی شہری صحافیوں سے خائف ہیں کہ ان کی موجودگی اسرائیلی حملوں کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کچھ لوگ صحافیوں کو پسند کرتے ہیں، کچھ نہیں۔‘‘
غزہ میں صحافی یوسف حسونہ نہ صرف جنگ کی ہولناکیوں کو دنیا تک پہنچا رہے ہیں بلکہ خود بھی اس کا شکار بن چکے ہیں۔ کچھ شہری ان سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ان کی آواز دنیا تک پہنچائیں، جبکہ کچھ خوفزدہ ہو کر دور رہنے کو کہتے ہیں۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق، اکتوبر 2023ء سے اب تک 200 سے زائد صحافی غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔ حسونہ کا پیغام واضح ہے، ’’ہم نے بچپن سے جنگ دیکھی ہے، لیکن ہم اپنے بچوں اور اسرائیلی بچوں کے لیے امن چاہتے ہیں۔‘‘
پس منظر
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 59,106 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ 100 سے زائد امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ’’اجتماعی قحط‘‘ پھیل رہا ہے۔
قحط اور موت کے سائے میں امن کی تلاش، غزہ میں جنگ بندی ممکن؟
غزہ پٹی میں ابتر ہوتے بحران اور قحط کے بڑھتے خطرے کے تناظر میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جنگ بندی کے لیے ثالثی کوششیں نتیجہ خیز کیوں ثابت نہیں ہو رہیں؟
چھ جولائی سے قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثی نمائندے اسرائیل اور حماس کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں مصروف ہیں، مگر 21 ماہ سے جاری اس جنگ کے تناظر میں فریقین کی سخت گیر پوزیشنیں کسی پائیدار معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
غزہ قحط کی دہلیز پر
غزہ پٹی میں غذائی قلت اور زندگی کے لیے لازمی بنیادی اشیاء کی شدید کمی کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی ترسیل پر پابندیوں نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
امریکہ نے اس تناظر میں اعلان کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف یورپ کا دورہ کریں گے تاکہ جنگ بندی اور امدادی راہداری کے قیام پر بات چیت کی جا سکے۔ امکان ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کا دورہ بھی کریں گے۔
مذاکراتی تعطل
موجودہ تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی اور 10 زندہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔
۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی معاہدے میں جنگ کے مستقل خاتمے کی ضمانت شامل ہو۔
۔ اسرائیل اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حماس کو اپنی جنگی اور حکومتی صلاحیتیں ترک کرنا ہوں گی۔
سیاسی مفادات بڑی رکاوٹ
پیرس کی سائنسز پو یونیورسٹی سے منسلک مشرق وسطیٰ امور کے ماہر کریم بیتار کے مطابق، ’’تلخ حقیقت یہ ہے کہ داخلی سیاسی مفادات کے باعث نہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور نہ ہی غزہ میں حماس کی قیادت کسی فوری اور جامع جنگ بندی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
زمینی کارروائیوں میں وسعت
اسرائیلی فوج نے اس ہفتے غزہ کے ان علاقوں میں بھی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جو اب تک زمینی عسکری حملوں سے محفوظ رہے تھے، جس سے جنگ بندی کی امیدوں کو مزید دھچکا پہنچا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے، خواتین اور بچوں سمیت 21 افراد ہلاک
غزہ پٹی میں منگل کی شب اور بدھ کی صبح نئے اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید کم از کم 21 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق ہلاک شدگان میں چھ بچے اور متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔
انسانی بحران اور قحط کا خطرہ
محصور فلسطینی علاقے غزہ پٹی میں دو ملین سے زائد افراد شدید بحرانی صورتحال کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیلی محاصرے اور پونے دو سالہ فوجی کارروائیوں کے باعث یہ علاقہ قحط کے دہانے پر ہے۔ اسرائیلی پابندیوں نے امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم کو بھی مزید مشکل بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں لوٹ مار اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق مئی سے اب تک وہاں ایک ہزار سے زائد ایسے فلسطینی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں، جو امدادی خوراک حاصل کرنے کی کوششوں میں تھے۔
اسرائیل کے تازہ ترین حملے اور ہلاکتیں
غزہ سٹی : منگل کی شب ایک رہائشی مکان پر حملے میں 12 افراد مارے گئے، جن میں چھ بچے اور دو خواتین شامل تھیں۔
تل الہوی: غزہ سٹی کے جنوبی حصے کے اس محلے میں ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ پر حملے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے ، جن میں تین بچے اور دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سے ایک خاتون حاملہ تھی۔
محلہ ناصر : غزہ سٹی کے علاقے الناصر میں بھی ایک خیمے پر حملے میں تین بچے مارے گئے۔ منگل کو رات گئے ہونے والی ان بچوں کی ہلاکتوں کی اطلاع شفاء ہسپتال کے ذرائع سے موصول ہوئی۔
سو سے زائد تنظیموں کا اسرائیل سے مطالبہ
اسرائیلی فوج نے ان حملوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم اس کا موقف ہے کہ حماس شہری آبادی میں چھپ کر کارروائیاں کرتی ہے، جس سے شہری ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
بدھ کے روز انسانی حقوق کی 115تنظیموں اور فلاحی اداروں نے ایک مشترکہ خط میں غزہ پٹی میں امداد کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا۔ اس خط میں اسرائیل پر امداد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور خوراک کی تقسیم کے مقامات پر فلسطینیوں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس مشترکہ خط میں کہا گیا ہے، ’’اسرائیلی حکومت کی طرف سے مکمل محاصرے کے نتیجے میں امداد میں تاخیر اور امداد کی تقسیم میں رکاوٹیں افراتفری، بھوک اور اموات کا باعث بنی ہیں۔‘‘
ان تنظیموں نے غزہ پٹی میں فوری جنگ بندی اور امداد میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
’غزہ کی ہولناکیوں‘ کے سائے میں اقوام متحدہ کی امن کی اپیل
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل 22 جولائی کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کر لی، جس میں تمام 193 رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج تمام پرامن ذرائع کو بروئے کار لائیں۔ یہ قرارداد پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تھی اور اسے 15 رکنی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر منظور کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اس موقع پر کہا کہ دنیا کو اس وقت پرامن سفارت کاری کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ’’غزہ میں ہولناکیوں کا منظر‘‘ اور یوکرین، سوڈان، ہیٹی اور میانمار جیسے خطوں میں جاری تنازعات عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم دنیا بھر میں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزیاں دیکھ رہے ہیں۔‘‘
غزہ پٹی کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے گوٹیرش نے کہا کہ ’’بھوک ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے‘‘ اور اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کو امداد کی فراہمی کے لیے محفوظ راستہ فراہم نہ کرنے سے فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ دنیا بھر میں بھوک اور انسانوں کی بے دخلی کی شرح ریکارڈ سطح پر ہے، جب کہ دہشت گردی، پرتشدد انتہا پسندی اور سرحد پار جرائم نے عالمی سلامتی کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سفارت کاری ہمیشہ تنازعات کو روکنے میں کامیاب نہیں رہی، لیکن اس میں اب بھی انہیں روکنے کی طاقت موجود ہے۔‘‘
اس منظور شدہ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج پرامن ذرائع جیسے مذاکرات، تحقیق، ثالثی، مصالحت، ثالثی عدالت، عدالتی فیصلے، علاقائی انتظامات یا دیگر پرامن ذرائع کے استعمال پر زور دیا گیا ہے۔
اجلاس کی صدارت کرنے والے پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ پٹی اور کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پرامن حل ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا، ’’دنیا بھر میں جاری بیشتر تنازعات کی جڑ کثیرالجہتی نظام کا بحران ہے، نہ کہ اصولوں کی ناکامی۔ اس کی وجہ اداروں کا مفلوج ہونا نہیں بلکہ سیاسی عزم اور سیاسی جرأت کی کمی ہے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان، مقبول ملک