اسرائیلی حملوں میں مزید بائیس فلسطینی ہلاک، غزہ سول ڈیفنس
وقت اشاعت 16 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 16 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- اسرائیلی حملوں میں مزید بائیس فلسطینی ہلاک، غزہ سول ڈیفنس
- یوکرین سے متعلق کسی بھی ڈیل میں جرمنی کا سلامتی کی ضمانتوں پر اصرار
- اسرائیلی وزیر کی جیل میں فلسطینی رہنما برغوتی سے گفتگو کی ویڈیو جاری
- برطانیہ میں آباد ہزاروں افغان باشندے اور برٹش فوجی ممکنہ ڈیٹا لیک سے متاثر
- مئی کے اواخر سے اب تک غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی کم از کم 1,760 فلسطینی ہلاک، اقوام متحدہ
- الاسکا سربراہی ملاقات سے متعلق چند اہم ضمنی حقائق
- ٹرمپ پوٹن سمٹ دوستانہ ماحول میں، مگر سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی
اسرائیلی حملوں میں مزید بائیس فلسطینی ہلاک، غزہ سول ڈیفنس
غزہ پٹی سے ہفتہ 16 اگست کو ملنے والی اے ایف پی اور دیگر نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق اس جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں صرف آج ہفتے کے دن ہی اسرائیلی حملوں میں مزید کم از کم 22 افراد مارے گئے۔ ساتھ ہی سول ڈیفنس ایجنسی کی طرف سے کہا گیا کہ اسرائیلی فورسز غزہ سٹی میں اپنی عسکری کارروائیاں شدید تر کر چکی ہیں، جن کی وجہ سے اس شہر کی باقی ماندہ آبادی کو اضافی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے میں ’الجزیرہ‘ کے پانچ صحافی ہلاک
غزہ سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے بتایا کہ غزہ سٹی کے علاقے زیتون اور چند دیگر حصوں میں حالات انتہائی تیزی سے ابتر ہو رہے ہیں اور وہاں کی مقامی آبادی کی پینے کے پانی اور اشیائے خوراک تک رسائی یا تو بالکل نہیں یا انتہائی محدود ہو چکی ہے، جبکہ اسرائیلی فورسز کی طرف سے وہاں شدید بمباری جاری ہے۔
غزہ سٹی کے متاثرہ حصوں میں پچاس ہزار باشندے انتہائی برے حالات میں
سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق غزہ سٹی میں زیتوں اور دیگر علاقوں میں، جہاں اسرائیلی مسلح افواج کی طرف سے مسلسل کارروائی کی جا رہی ہے، تقریباﹰ 50 ہزار افراد ایسے ہیں، جن کی اکثریت کے پاس پانی اور اشیائے خوراک کی شدید کمی ہے اور وہ دیگر ضروریات زندگی سے محروم تو پہلے ہی سے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں مجموعی طور پر اور غزہ سٹی میں خاص طور پر میڈیا نمائندوں کو حاصل انتہائی محدود رسائی کے باعث اپنے طور پر غزہ سٹی میں ہونے والی نئی ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر سکی جبکہ اسے اپنی رپورٹنگ کے لیے بھی غزہ میں محکمہ صحت کے حکام، غزہ سول ڈیفنس ایجنسی، اسرائیلی فوج اور دیگر اداروں کی طرف سے مہیا کردہ اعداد و شمار پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
غزہ سٹی کے رہائشی علاقے فضائی حملوں کی زد میں
غزہ سٹی کے رہائشی کئی مقامی باشندوں نے حالیہ دنوں میں اے ایف پی کے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ اسرائیل اس شہر کے رہائشی علاقوں پر اپنے فضائی حلے تیز تر کر چکا ہے، خاص طور پر شہر کے زیتون نامی علاقے میں۔ فضائی حملوں میں اس نئی شدت کی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے مذمت کی گئی ہے۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے الزام لگایا کہ اسرائیل غزہ سٹی کے علاقے زیتون میں مبینہ ’نسلی تطہیر‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیلی فوج نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ سٹی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور اپنی تمام کارروائیوں میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی پوری کوشش کرتی ہے۔
سکیورٹی کابینہ کا فیصلہ
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حالیہ دنوں میں اعلان کیا تھا کہ ان کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ پٹی میں غزہ سٹی کو پوری طرح اسرائیلی کنٹرول میں لے لینے کی منظوری دے دی ہے۔ غزہ پٹی ایک انتہائی گنجان آباد علاقہ تھا، جس کی مجموعی آبادی تقریباﹰ 2.2 ملین بنتی ہے، لیکن 22 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کی وجہ سے یہ تقریباﹰ پورا ساحلی خطہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
جہاں تک غزہ سٹی کا تعلق ہے، جسے اسرائیل اس وقت پوری طرح اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے، تو وہ غزہ پٹی کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر تھا، مگر وہاں بھی اب ہر طرف تباہی کا منظر دیکھنے میں آتا ہے۔
غزہ پٹی کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق آج ہفتے کے روز جو مزید 22 فلسطینی اسرائیلی حملوں اور فائرنگ میں ہلاک ہو گئے، ان میں سے کم از کم 13 ایسے تھے، جو غزہ پٹی کے شمال اور جنوب میں مختلف امدادی مراکز کے پاس امدادی اشیائے خوراک کے حصول کے لیے موجود تھے کہ اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ میں مارے گئے۔
یوکرین سے متعلق کسی بھی ڈیل میں جرمنی کا سلامتی کی ضمانتوں پر اصرار
جرمن حکومت نے آج ہفتے کے روز اس بات پر زور دیا کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے کسی بھی ممکنہ ڈیل میں مستقبل میں یوکرین کے لیے سلامتی کی ضمانتوں کا لازمی طور پر خیال رکھا جانا چاہیے۔
برلن سے موصولہ رپورٹوں میں چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت کے اندرونی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تقریباﹰ ساڑھے تین برسوں سے جاری یوکرین کی جنگ میں سیزفائر کے لیے کوئی بھی ڈیل بالآخر حتمی جنگ بندی اور مستقل امن کی طرف پہلا قدم ہونا چاہیے اور ایسی کسی بھی ڈیل کے لیے ناگزیر ہو گا کہ اس میں یوکرین کو سلامتی کی ضمانتیں بھی دی جائیں۔
یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے جمعے کے روز امریکی ریاست الاسکا میں ہونے والی روسی اور امریکی صدور کی سربراہی ملاقات کے ایک دن بعد جرمن حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ یوکرینی تنازعے کا کوئی بھی ابتدائی حل ٹھوس ہونا چاہیے، تاکہ وہ آگے جا کر مستقل امن کی راہ ہموار کر سکے۔
ساتھ ہی میرس حکومت کے ذرائع کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین کی جنگ کے کسی بھی مذاکراتی حل کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ یوکرین کی ریاستی خود مختاری اور وحدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا مکمل احترام بھی کیا جائے۔
یوکرینی جنگ میں کسی ڈیل سے متعلق یورپی کمیشن کی طرف سے بھی ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، جس پر یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین اور یورپی کونسل کے صدر انٹونیو کوسٹا کے دستخط ہیں اور جس میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کے لیے سلامتی کی ضمانتیں ایک ایسا پہلو ہیں، جسے کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ الاسکا سمٹ کے بعد جاری کردہ اس اعلامیے پر یورپی یونین کی رکن کئی ریاستوں کے سربراہان مملکت و حکومت نے بھی دستخط کیے ہیں۔
اسرائیلی وزیر کی جیل میں فلسطینی رہنما برغوتی سے گفتگو کی ویڈیو جاری
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر بین گویر نے کل جمعے کو سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو پوسٹ کی، جس میں انہیں ایک زیر حراست فلسطینی رہنما سے آمنے سامنے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ اسرائیلی وزیر یہ کہتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ اسرائیل ہر اس فرد کا سامنا کرے گا، جو اسرائیل کے خلاف اقدامات کرے گا اور ایسے عناصر کا ’’صفایا کر دیا‘‘ جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ مختصر ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کی گئی اور اس سے یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ کب ریکارڈ کی گئی تھی۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر بین گویر اس وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو اشتعال انگیز واقعات بنانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
یہ ویڈیو جس فلسطینی رہنما کے ساتھ جیل میں کی جانے والی گفتگو پر مبنی ہے، ان کا نام مروان برغوتی ہے اور وہ ایک اسرائیلی جیل میں فلسطینیوں کے اسرائیلیوں پر حملوں کے سلسلے میں جرائم کے باعث پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مروان برغوتی کو دو عشروں سے بھی زیادہ عرصہ قبل گرفتار کیا گیا تھا اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق برغوتی انتہائی مقبول فلسطینی رہنما ہیں اور بہت سے فلسطینی تو انہیں ’’فلسطینیوں کے نیلسن منڈیلا‘‘ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
ایکس پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیو میں اسرائیلی وزیر بین گویر جیل میں مروان برغوتی سے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ’’جیت نہیں سکیں گے۔‘‘ اس کے علاوہ اسی ویڈیو میں انتہائی دائیں باز وکے یہ اسرائیلی وزیر مروان برغوتی سے یہ بھی کہتے ہیں، ’’کوئی بھی جو اسرائیل کے لیے مسائل پیدا کرے گا، جو اسرائیلی بچوں کو قتل کرے گا، ہماری خواتین کو قتل کرے گا، ہم اس کا صفایا کر دیں گے۔‘‘
فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں میں سعودی عرب پیش پیش کیوں؟
مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اس ویڈیو کلپ کا دورانیہ صرف 13 سیکنڈ ہے۔ اسی دوران اسرائیلی وزیر بین گویر کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ بین گویر اس جیل میں گئے تھے جہاں مروان برغوتی قید ہیں اور یہ ویڈیو کلپ اصلی ہے۔ تاہم ساتھ ہی ترجمان نے اس بات سے انکار کیا کہ بین گویر مروان برغوتی کو کوئی دھمکیاں دے رہے تھے۔
برطانیہ میں آباد ہزاروں افغان باشندے اور برٹش فوجی ممکنہ ڈیٹا لیک سے متاثر
برطانوی وزارت دفاع سے منسلک ایک فرم کے مطابق ڈیجیٹل ڈیٹا لیک ہو جانے کے ایک نئے واقعے سے ممکنہ طور پر برطانیہ میں آباد ہزاروں افغان باشندے، برطانوی فوجی اور سرکاری ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔
اس برطانوی فرم کا نام ’جیٹ سینٹر‘ ہے اور وہ عام طور پر فضائی پروازوں کے لیے زمینی سرگرمیوں کی ذمے دار ہوتی ہے۔ جیٹ سینٹر نے جمعہ 15 اگست کو رات گئے بتایا کہ اسے اپنی تنصیبات میں ڈیٹا سکیورٹی کے حوالے سے ایک ایسے نئے واقعے کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں ’’ایسے افراد کو ایک محدود حد تک کمپنی کی ای میلز تک رسائی حاصل ہو گئی ہے، جن تک یہ ڈیٹا نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔‘‘
حکومتی وزراء کے ساتھ سفر کرنے والے افراد کا ڈیٹا بھی لیک
اس برطانوی فرم کی طرف سے بتایا گیا کہ اس واقعے سے ممکنہ طور پر جتنے افراد متاثر ہوئے ہیں، ان کی تعداد تقریباﹰ 3,700 تک بنتی ہے۔ ان میں ایسے ہزاروں افغان بانشدے بھی شامل ہیں، جنہیں افغانستان سے برطانیہ لایا گیا تھا اور جو اب برطانیہ میں آباد ہیں۔
اس کے علاوہ اس ڈیٹا لیک کے متاثڑین میں ایسے برطانوی فوجی بھی شامل ہیں، جو اپنے فرائض کی انجام دہی اور معمول کی فوجی مشقوں کے لیے فضائی سفر کرتے رہتے ہیں۔
جیٹ سینٹر نامی کمپنی نے مزید بتایا کہ جن دیگر افراد کا ڈیٹا بھی ممکنہ طور پر لیک ہو گیا ہے، ان میں ایسے صحافی اور اعلیٰ سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں، جو مختلف مواقع پر اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے حکومتی وزراء کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔
ماضی میں ہونے والی بڑی غلطی
برطانیہ میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ وہاں افغان باشندوں سے متعلق ڈیجیٹل ڈیٹا لیک ہو گیا ہو۔ اس سے قبل فروری 2022ء میں بھی ’’غلطی سے‘‘ ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں حکام کے مطابق ہزارہا افراد کا ڈیٹا لیک ہو گیا تھا۔
قریب ساڑھے تین سال قبل ایک سرکاری اہلکار نے غلطی سے 18,714 ایسے افراد کا ڈیٹا جاری کر دیا تھا، جن میں سے بہت سے افغان باشندے کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے قبل ہندوکش کی اس ریاست میں برطانوی دستوں کے شانہ بشانہ طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف لڑتے رہے تھے۔
ماضی میں افغانستان میں نیٹو کے دیگر رکن ممالک کی طرح برطانیہ کے فوجی دستے بھی اپنی طالبان مخالف سرگرمیوں کے لیے مقامی افغان باشندوں سے عسکری، مترجمین کے طور پر یا دیگر خدمات لیتے رہے تھے۔ ان خدمات کے بدلے میں ان افغان باشندوں اور ان کے اہل خانہ کو ان کی جانوں کو لاحق خطرات کے باعث ان کے آجر مغربی ممالک میں آباد کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔
برطانیہ میں بھی اس حوالے سے ’افغان ری لوکیشن اینڈ اسسٹنس پالیسی‘ نامی پروگرام پر عمل کیا جا رہا ہے، جس کے تحت اب تک ہزاروں افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد کیا جا چکا ہے۔
مئی کے اواخر سے اب تک غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی کم از کم 1,760 فلسطینی ہلاک، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق جنگ زدہ غزہ پٹی میں مئی کے اواخر سے رواں ہفتے بدھ کے دن تک مختلف امدادی مراکز سے امدادی خوراک اور دیگر اشیاء کے حصول کے خواہش مند کم ازکم 1,760 فلسطینی مارے جا چکے تھے۔
یروشلم سے ہفتے کے روز ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کی طرف سے جمعہ 15 اگست کو رات گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس نے غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی فلسطینیوں کی ہلاکتوں سے متعلق جو تازہ اعداد و شمار جمع کیے ہیں، ان میں پچھلی مرتبہ ایسے اعداد و شمار کے اجرا کے مقابلے میں رواں ماہ اگست میں سینکڑوں ہلاکتوں کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
زیادہ تر ہلاکتیں جی ایچ ایف کے مراکز پر یا ان کے قریب
فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’27 مئی سے لے کر 13 اگست تک ہم نے غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے کم از کم بھی 1,760 واقعات ریکارڈ کیے۔ ان میں سے 994 افراد امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ امدادی تنظیم غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے امدادی مراکز پر یا ان کے قریب کی جانے والی فائرنگ اور حملوں میں مارے گئے۔ ان کے علاوہ اسی عرصے میں 766 فلسطینی امدادی قافلوں کے راستوں پر پیش آنے والے خونریز واقعات میں ہلاک ہوئے۔ ان ہلاکتوں میں سے زیادہ تر اسرائیلی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے ہوئیں۔‘‘
اہم بات یہ بھی ہے کہ اس سال یکم اگست تک ایسی فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد 1,373 بنتی تھی۔ مگر پھر زیادہ تر جی ایچ ایف کے امدادی مراکز پر یا ان کے نواح میں اسرائیلی دستوں کی طرف سے فائرنگ اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے اتنے زیادہ واقعات پیش آئے کہ 13 اگست تک غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی فلسطینیوں کی اموات کی مجموعی تعداد کم از کم بھی 1,760 ہو گئی۔
جمعے کے روز مزید کم ا زکم 38 ہلاکتیں
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق کل جمعے کے روز بھی اس جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مزید کم از کم 38 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں سے کم ا زکم 12 ایسے شہری تھے، جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امدادی خوراک اور دیگر اشیاء کے منتظر تھے۔
غزہ کی جنگ کا آغاز فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیل میں سات اکتوبر 2023ء کو کیے جانے والے اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد ہوا تھا، جس میں 1200 سے زائد افراد مارے گئے تھے اور فلسطینی عسکریت پسند واپس غزہ جاتے ہوئے تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔
ان میں سے درجنوں یرغمالی ابھی تک غزہ پٹی میں حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے کئی کے بارے میں اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ وہ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں جو زمینی اور فضائی حملے شروع کیے تھے، وہ غزہ پٹی کی جنگ کی صورت میں آج تک جاری ہیں۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق ان اسرائیل کی عسکری کارروائیوں میں اب تک کم از کم 61,827 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
الاسکا سربراہی ملاقات سے متعلق چند اہم ضمنی حقائق
- ماسکو میں کریملن کی طرف سے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر پوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب ٹرمپ کی امریکی ریاست الاسکا میں اینکریج کے مقام پر ایک ملٹری بیس پر ہونے والی ملاقات دو گھنٹے اور 45 منٹ تک جاری رہی اور اس میں اطراف کے وزرائے خارجہ اور سینیئر مشیر بھی موجود تھے۔
- یہ صدارتی سمٹ فروری 2022ء میں یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے بعد سے آج تک ہونے والی امریکی اور روسی صدور کی پہلی براہ راست اور بالمشافہ ملاقات تھی۔
- اس سمٹ کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ دونوں رہنما ’’جلد ہی پھر آپس میں بات کریں گے،‘‘ بلکہ ’’ہو سکتا ہے کہ دونوں جلد ہی آپس میں دوبارہ ملیں بھی۔‘‘
- امریکی صدر کے اس بیان پر روسی صدر پوٹن نے دوبارہ ملاقات کے امکان کے حوالے سے فوراﹰ کہا، ’’اگلی مرتبہ ماسکو میں۔‘‘ اس پر صدر ٹرمپ نے کہا، ’’یہ ایک دلچسپ خیال ہے۔ مجھے اس پر کچھ (سیاسی) تپش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن میں دیکھ سکتا ہوں کہ شاید ایسا ہو بھی سکتا ہے۔‘‘
- اس ملاقات کے بعد دونوں صدور کے پاس چونکہ کسی بڑی پیش رفت کا اعلان کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، اس لیے دونوں نے ہی پریس کانفرنس کے دوران اپنے بیانات میں قدرے مبہم انداز گفتگو اختیار کیا اور عمومی امید پسندی کا اظہار کیا۔
- اینکریج سمٹ سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں صدور کی جمعے کی شام ہونے والی ملاقات کے بعد ایک ایسی سہ فریقی ملاقات بھی ہو سکتی ہے، جس میں یوکرینی صدر زیلنسکی بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ لیکن سمٹ کے بعد کی پریس کانفرنس میں فریقین کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہ کہا گیا کہ آیا تینوں ممالک کے صدور کی ایسی کسی ممکنہ ملاقات کے بارے میں کوئی فیصلہ کن بات بھی ہوئی۔
ٹرمپ پوٹن سمٹ دوستانہ ماحول میں، مگر سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی
امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کی الاسکا میں جمعے کو ہوئی سربراہی ملاقات میں یوکرینی جنگ سے متعلق کوئی سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی۔ طویل ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے کہا کہ دوستانہ ماحول میں یہ بات چیت تعمیری رہی۔
روس کی یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی ریاست الاسکا میں اینکریجکے مقام پر ایک فوجی اڈے پر ہونے والی اس ٹرمپ پوٹن ملاقات سے دنیا کو کافی زیادہ امیدیں تھیں کہ اس میں شاید امریکی اور روسی سربراہان مملکت جنگ بندی کے کسی نہ کسی معاہدے تک پہنچنے کا راستہ نکال لیں گے۔
سمٹ کے بعد 12 منٹ کی مشترکہ پریس کانفرنس
لیکن کئی گھنٹے طویل یہ ملاقات ایسی کسی بڑی پیش رفت کی وجہ نہ بن سکی۔ ملاقات کے بعد دونوں صدور نے 12 منٹ تک میڈیا کے نمائندوں سے مشترکہ گفتگو کی، جس میں انہوں نے اس ملاقات کو تعمیری قرار دیا۔ بعد میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک دیرپا سیزفائر معاہدہ قدرے قریب ہے مگر اس سمٹ میں اس معاہدے تک پہنچا نہیں جا سکا۔
اپنی ملاقات کے بعد دونوں صدور نے میڈیا سے جو گفتگو کی، اس میں انہوں نے اپنی علیحدگی میں ہونے والی اس ملاقات کی زیادہ تفصیلات بیان نہ کیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمپر پوٹن نے بس اتنا کہا کہ انہوں نے کئی اہم نکات پر اتفاق کیا ہے۔ مگر یہ ’اہم نکات‘ کیا ہیں، ان کی بھی انہوں نے کوئی تفصیلات نہ بتائیں۔
اس پریس کانفرنس کے دوران موقع پر موجود صحافیوں کو کوئی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے بس وہی کچھ سنا، جو صدر ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب نے کہا۔
نیٹو اور صدر زیلنسکی کی بریفنگ
اس پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ صدر پوٹن کے ساتھ اپنی بات چیت کے نتائج سے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی، یورپی یونین کے رہنماؤں اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے لیڈروں کو بریفنگ دیں گے۔
ساتھ ہی امریکی صدر نے کہا، ’’جب کوئی ڈیل ہو جائے گی، تب ہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔ حتمی طور پر یہ فیصلہ انہی کا ہو گا۔‘‘
اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں اور امریکی صدر ٹرمپ کی میزبانی میں، میڈیا نمائندوں سے مختصر خطاب میں پہل روسی صدر نے کی۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری یہ ملاقات بہت تعمیری رہی۔ اور کئی نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ صرف چند نکات ایسے ہیں، جن پر کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ ان میں سے بھی کچھ انتہائی اہم نہیں ہیں۔‘‘
صدر ولادیمیر پوٹن نے مزید کہا، ’’اس ملاقات میں ہم نے مسٹر ٹرمپ کے ساتھ اچھے براہ راست رابطے قائم کر لیے ہیں۔‘‘
اس سمٹ کے بعد نشتریاتی ادارے فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا، ’’ہم یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ میں ایک معاہدے کے بہت قریب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے یوکرینی صدر زیلنسکی کو بھی کسی ممکنہ ڈیل پر آمادگی ظاہر کرنا ہو گی۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر، شکور رحیم