غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی ’تباہی‘ کا سبب بنے گی، ماکروں
وقت اشاعت 20 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 20 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- مالی: القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے حملوں میں 149 فوجی ہلاک
- یوکرین کی سکیورٹی ضمانتوں کے مذاکرات میں روس کی شمولیت لازمی ہے، روس
- اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائی ’تباہی‘ کا سبب بنے گی، ماکروں
- روس نے اڈیسا میں ایک گیس ڈسٹری بیوشن اسٹیشن کو نشانہ بنایا ہے، زیلنسکی
- آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے نیتن یاہو کی تنقید کو نظر انداز کر دیا
- اسرائیل غزہ شہر پر حملے سے قبل 50 ہزار ریزرو فوجیوں کو واپس بلائے گا، فوجی عہدیدار
- افغانستان میں بس حادثہ: ایران سے واپس آنے والے 70 سے زائد افغان ہلاک
ادارت: امتیاز احمد، کشور مصطفی
اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائی ’تباہی‘ کا سبب بنے گی، ماکروں
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے کہا ہے کہ غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اسرائیلی فوجی کارروائی ’’دونوں اقوام کے لوگوں کے لیے مکمل تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب اسرائیل کے وزیر دفاع نے غزہ شہر پر قبضے کے لیے اسرائیلی فوجی آپریشن اور اس کے آغاز سے قبل تقریباً 60 ہزار ریزروسٹ فوجیوں کو طلب کرنے کی منظوری دی ہے۔
فرانسیسی صدر نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اسرائیل کا یہ منصوبہ ’’خطے کو ایک مستقل جنگ کی طرف دھکیل دے گا۔‘‘ ماکروں نے ایک ’’انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن مشن‘‘ کے اپنے مطالبے کو بھی دہرایا۔
ادھر جرمنی کی طرف سے بھی غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن میں ’اضافے‘ کی مذمت کی گئی ہے۔ جرمن حکومت نے آج بدھ 20 اگست کو کہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن میں ’’اضافے کو مسترد‘‘ کرتی ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفن میئر نے صحافیوں کو بتایا کہ جرمنی کے لیے یہ سمجھنا ’’مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ ان کارروائیوں سے تمام یرغمالیوں کی رہائی یا جنگ بندی کیسے ہو گی۔‘‘
مالی: القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے حملوں میں 149 فوجی ہلاک
مالی کی فوج کے مطابق القاعدہ سے منسلک گروپ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (JNIM) کے عسکریت پسندوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر مربوط حملے کیے، جن کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 149 سے زائد فوجی ہلاک ہو گئے۔
فوج اور دیگر ذرائع کے مطابق جہادیوں نے مالی میں دو فوجی تنصیبات پر حملہ کیا، جبکہ مقامی رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ دونوں علاقوں میں شدید حملے ہوئے۔ یہ حملے منگل کے روز ہوئے اور ان کی ذمہ داری القاعدہ سے منسلک جہادی گروپ فار دا سپورٹ آف اسلام اینڈ مسلمز نے قبول کی۔
ایک دہائی سے زائد عرصے سے مالی القاعدہ اور ’’دولت اسلامیہ‘‘سے منسلک جنگجوؤں، علیحدگی پسند تحریکوں اور جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے تشدد کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ تازہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب ملک کی فوجی جنتا، جو 2020 اور 2021 میں لگاتار فوجی بغاوتوں کے بعد اقتدار میں آئی تھی، تشدد میں تیزی کا مقابلہ کر رہی ہے۔
عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے منگل کی صبح وسطی قصبے فارابوگو میں ایک فوجی کیمپ پر قبضہ کر لیا ہے۔
یوکرین کی سکیورٹی ضمانتوں کے مذاکرات میں روس کی شمولیت لازمی ہے، روس
روس نے بدھ کو کہا ہے کہ یوکرین کی سلامتی کی ضمانتوں پر کسی بھی بات چیت میں اس کی شمولیت ضروری ہے۔ ساتھ ہی یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی کسی فوری ملاقات کے امکان کو بھی کم کر کے پیش کیا گیا ہے۔
دریں اثنا نیٹو کے فوجی سربراہان یوکرین کے لیے سکیورٹی گارنٹیوں پر ایک ورچوئل اجلاس منعقد کر رہے ہیں، جو تقریباً ساڑھے تین سال سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے عالمی سفارت کاری کی تازہ ترین کوشش ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے خبردار کیا ہے کہ ’’روسی فیڈریشن کے بغیر سکیورٹی گارنٹیوں پر سنجیدگی سے بات کرنا ایک یوٹوپیا ہے، یہ ایک لاحاصل کوشش ہے۔‘‘
ماسکو نے 1994 میں بوڈاپیسٹ میمورنڈم پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد یوکرین، بیلاروس اور قازقستان کے لیے سوویت دور کے رہ جانے والے متعدد جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے بدلے ان کی سکیورٹی کو یقینی بنانا تھا۔
لیکن روس نے پہلے 2014 میں کریمیا پر قبضہ کر کے اور پھر 2022 میں یوکرین کے خلاف ایک بڑے حملے کا آغاز کر کے اس میمورنڈم کی خلاف ورزی کی، جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہوئے اور لاکھوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایک امریکی دفاعی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل کو امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین ڈین کین نے یورپی فوجی سربراہان کے ساتھ ’’ایک ممکنہ یوکرین امن معاہدے کے لیے بہترین آپشنز‘‘ پر بات چیت کی۔
ادھر مشرقی یوکرین میں روسی افواج نے تازہ پیش قدمی کا دعویٰ کیا اور یوکرینی حکام نے روسی حملوں میں مزید ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنی تاریخی ملاقات کے تین دن بعد پیر کو زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کو وائٹ ہاؤس بلایا۔
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس میں یورپی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اہمیت کو کم کر کے پیش کرتے ہوئے اسے یوکرین پر امریکی صدر کے موقف کو تبدیل کرنے کی ’’ایک بھونڈی‘‘ کوشش قرار دیا۔
روس نے اڈیسا میں ایک گیس ڈسٹری بیوشن اسٹیشن کو نشانہ بنایا ہے، زیلنسکی
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روسنے یوکرین کے جنوبی علاقے اوڈیسا میں ایک گیس ڈسٹری بیوشن اسٹیشن پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ کی موجودہ کوششوں کے دوران روس پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
زیلنسکی نے ایکس پر لکھا، ’’یہ تمام حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ماسکو پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ نئی پابندیاں اور محصولات عائد کرنے کی ضرورت ہے، جب تک کہ سفارتکاری مکمل طور پر موثر نہ ہو جائے۔‘‘
زیلنسکی نے یہ نہیں بتایا کہ گیس اسٹیشن کتنا اہم ہے۔
مقامی حکام نے علاقے میں گیس کی فراہمی کے حوالے سے کسی قسم کی پریشانی کی اطلاع نہیں دی۔ یوکرین گیس کو نہ صرف صنعتی ضروریات کے لیے بلکہ گھروں کو گرم کرنے اور کھانا پکانے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔
ادھر یوکرینی حکام نے بتایا ہے کہ ملک کے شمال مشرقی علاقے سومی پر گزشتہ شب کیے جانے والے روسی ڈرون حملوں میں بچوں سمیت ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق آدھی رات کے کچھ دیر بعد، 15 ڈرونز نے اوختیرکا قصبے کے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا۔
کم از کم 14 افراد کو طبی امداد دی گئی، جن میں ایک خاندان بھی شامل تھا، جس میں پانچ ماہ سے چھ سال تک کی عمر کے تین بچے بھی شامل تھے۔ زخموں کی شدت کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔
حملے میں نقصان پہنچنے والی عمارتوں میں ایک ایپارٹمنٹ بلڈنگ اور 13 مکانات بھی شامل ہیں۔
فروری 2022 میں روسی حملے کے آغاز کے بعد سے اب یوکرین میں شہری علاقوں پر شدید بمباری کی جا رہی ہے۔ روس سے متصل علاقہ سومی شدید متاثر ہوا ہے، جہاں شہریوں کی ہلاکتیں اور پانی اور بجلی کی لائنوں جیسے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
یوکرین نے بھی روسی علاقے پر ڈرونز کے ساتھ حملے کیے ہیں، جن کا ہدف فوجی اڈے اور سپلائی کے راستے بنے۔
یہ تازہ حملے ایک ایسے وقت ہوئے ہیں، جب امریکہ کی جانب سے اس تنازعے کو ختم کرنے کی کوششیں بڑھا دی گئی ہیں۔ یوکرینی صدر وولودیمیر زیلینسکی نے کہا ہے کہ وہ بغیر کسی پیشگی شرط کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔
میں ایسی باتوں کو ذاتی طور پر نہیں لیتا، آسٹریلوی وزیر اعظم کا نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے آج بدھ 20 اگست کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی اس شدید مذمت کو معمولی قرار دیا ہے، جس میں نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ان کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ البانیز نے کہا کہ وہ دوسرے ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
ایک پریس بریفنگ کے دوران البانیز نے کہا، ’’میں ایسی باتوں کو پرسنل نہیں لیتا، میں لوگوں کے ساتھ سفارتی طریقے سے بات چیت کرتا ہوں۔ وہ دوسرے رہنماؤں کے بارے میں بھی اسی طرح کی باتیں کہہ چکے ہیں۔‘‘
نیتن یاہو نے البانیز کو ’’کمزور سیاست دان‘‘ قرار دیا تھا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی برک نے قومی نشریاتی ادارے ABC سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’طاقت کا معیار یہ نہیں کہ آپ کتنی زندگیوں کو تباہ کر سکتے ہیں یا کتنے بچوں کو بھوکا رکھ سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’طاقت کا پیمانہ دراصل رہنما اصولوں پر قائم رہتے ہوئے مشکل فیصلے کرنا ہے جیسے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کیا ہے۔ یہ جانتے ہوئےکہ ان کا اقدام اسرائیل کو ناگوار گزرے گا، وہ بینجمن نیتن یاہو سے براہ راست بات کرتے ہیں۔‘‘
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر میں ایک فلسطینی ریاست کو مشروط طور پر تسلیم کرنے کے آسٹریلیا کے فیصلے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آ گئی ہے۔
نیتن یاہو نے منگل کوایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’’تاریخ البانیز کو یاد رکھے گی کہ وہ کیا ہیں: ایک کمزور سیاست دان، جس نے اسرائیل کو دھوکہ دیا اور آسٹریلیا کے یہودیوں کو چھوڑ دیا۔‘‘
البانیز نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی اعتدال پسند بائیں بازو کی حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر اس منصوبے کا اعلان کرنے سے پہلے ہی انہوں نے نیتن یاہو کو فلسطینی ریاست کی حمایت کے آسٹریلیا کے فیصلے کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا: ’’اس وقت، میں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کو اپنے اور آسٹریلیا کے مستقبل کے نقطہ نظر کا واضح اشارہ دیا تھا اور اس سمت کا بھی واضح اشارہ دیا تھا، جو ہم کرنے جا رہے تھے۔‘‘
البانیز نے مزید کہا، ’’میں نے انہیں اس بات کا موقع دیا کہ وہ کسی ممکنہ سیاسی حل کے بارے میں بتائیں۔‘‘
اس ہفتے، اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی میں تعینات آسٹریلوی سفارت کاروں کے ویزے منسوخ کر دیے، جب البانیز کی لیبر حکومت نے ایک اسرائیلی رکن پارلیمنٹ کا ویزا منسوخ کر دیا تھا، کیونکہ آسٹریلوی حکومت نے ان کے بیانات کو متنازع اور اشتعال انگیز سمجھا تھا۔
اسرائیل کو غزہ پٹی میں اپنی فوجی کارروائیوں پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، جن میں 62 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور غزہ ایک انسانی بحران کا شکار ہو چکا ہے، جس سے اس کی زیادہ تر آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کو اس وقت ہوا تھا، جب حماس کے زیر قیادت عسکریت پسند جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے، 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
افغانستان میں بس حادثہ: ایران سے واپس آنے والے 70 سے زائد افغان ہلاک
افغانستان کے شمال مغربی علاقے میں ایک بس حادثے میں کم از کم 79 افراد مارے گئے، جن میں 19 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ حادثہ افغان صوبہ ہرات میں پیش آیا۔
وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایران سے لوٹنے والی اس بس کو پیش آنے والے حادثے میں دو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
افغانستان کے طلوع نیوز نے ایک افغان عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ یہ حادثہ منگل کی رات 8:30 بجے صوبہ ہرات میں پیش آیا۔ مذکورہ بس ایک ٹرک اور موٹر بائیک سے ٹکرا گئی، جس سے خوفناک آگ لگ گئی اور کئی افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
افغانستان میں سڑکوں کی خراب حالت اور ڈرائیوروں کی لاپروائی کی وجہ سے ٹریفک حادثات عام ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں میں تقریباً 18 لاکھ افغان مہاجرین کو ایران سے زبردستی واپس بھیجا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رواں سال کے آغاز سے پاکستان سے 184,000 اور ترکی سے 5,000 سے زائد افغانوں کو ملک بدر کیا گیا ہے۔ مزید برآں تقریباً 10 ہزار افغان قیدیوں کو بھی واپس بھیجا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر پاکستان سے تھے۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے رواں برس جولائی میں پڑوسی ممالک کو افغانوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ایران اور پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ ان غیر ملکیوں کو ملک بدر کر رہے ہیں جو ان کے ملک میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
افغانستان کی منسٹری آف ریفیوجیز اینڈ ری پیٹریئیشن کے مطابق تقریباً 60 لاکھ افغان بطور مہاجرین اب بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔
اسرائیل غزہ شہر پر حملے سے قبل 50 ہزار ریزرو فوجیوں کو واپس بلائے گا، فوجی عہدیدار
ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے آج بدھ کے روز بتایا کہ غزہ شہر پر قبضے کے لیے اسرائیلی فوج ایک منصوبہ بندی کے تحت آپریشن شروع کرنے سے قبل 50 ہزار ریزروسٹس کو طلب کرے گی، تاہم غزہ پٹی کے سب سے بڑے شہری مرکز میں متوقع اس آپریشن میں زیادہ تر موجودہ فوجی اہلکار ہی حصہ لیں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس فوجی اہلکار نے بتایا کہ ریزروسٹس کو اگلے چند دنوں میں ستمبر میں ڈیوٹی کے لیے حاضر ہونے کے نوٹس بھیجے جا سکتے ہیں۔
اس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا، ’’اس نئے مرحلے میں زیادہ تر فوجی ریزروسٹس نہیں بلکہ موجودہ فوجی اہلکار ہوں گے۔‘‘
اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ طلب کیے جانے والے ریزروسٹس فضائیہ، انٹیلیجنس یا معاون کرداروں میں ذمہ داریاں نبھا سکتے ہیں یا غزہ سے باہر تعینات موجودہ فوجیوں کی جگہ لے سکتے ہیں۔