اسرائیل کی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے عدم پیشی
30 جنوری 2013منگل 29 جنوری کو جنیوا میں ہونے والے اس سیشن میں اسرائیل کی عدم شرکت پر شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ امریکا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کا عمل ایک ’گراں قدر طریقہ کار‘ ہے اور اس کا اطلاق تمام ممالک پر کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل اس عالمی ادارے کی رُکن ریاستوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ وضع کیا ہوا ہے جسے ’یونیورسل پیریوڈک ریویو‘ (UPR) کا نام دیا جاتا ہے۔ 29 جنوری کو اس حوالے سے اسرائیل کا جائزہ لیا جانا تھا۔کونسل کی جانب سے اس حوالے سے اسرائیل کا گزشتہ جائزہ دسمبر 2008 میں لیا گیا تھا۔
اسرائیل نے جسے کونسل کے جائزے میں فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے اس کے سلوک پر تنقید کا سامنا ہو سکتا تھا، گزشتہ برس مئی میں یہ کہتے ہوئے کونسل کے ساتھ تعلقات ختم کر لیے تھے کہ اس کے خلاف تعصب برتا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان یِگال پالمور Yigal Palmor نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’’اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے کام سے تعلق غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر رہا ہے۔ یہ پالیسی میں ابھی تک ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘
جنیوا میں قائم اس کونسل کے سفارت کاروں کا خیال تھا کہ اسرائیل اپنے نقطہ نظر تبدیلی لاتے ہوئے کونسل کے سامنے پیش ہوگا، تاہم عدم پیشی پر ان سفارت کاروں کی طرف سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ کونسل کے صدر پولینڈ کے سفارت کار Remigiusz Henczel نے اسے ’’ایک اہم مسئلہ اور غیر مثالی صورتحال‘‘ قرار دیا ہے۔
47 رکنی کونسل کی طرف سے ایک قرار منظور کی گئی ہے جس میں اسرائیل کی غیر حاضری کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس پر زور دیا گیا ہے کہ رواں برس اکتوبر یا نومبر میں ہونے والے کونسل کے آئندہ جائزے میں شریک ہو۔
(aba/ah (Reuters