اسرائیل پر غزہ میں سیز فائر کے لیے بڑھتا دباؤ
وقت اشاعت 24 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 24 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- غزہ سٹی میں شدید اسرائیلی بمباری
- اسرائیل نے دارالحکومت صنعا پر حملہ کیا، حوثی ذرائع
- جنگ مخالف اسرائیلی شہریوں کے مظاہرے
- آسٹریلیا میں فلسطینیوں کے حق میں بڑے مظاہرے
- اسرائیل پر غزہ میں سیز فائر کے لیے بڑھتا دباؤ
غزہ سٹی میں شدید اسرائیلی بمباری
اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب غزہ سٹی کے مشرقی اور شمالی علاقوں پر بمباری کی، جس سے گھروں اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ عینی شاہدین کے مطابق زیتون اور شجاعیہ میں دھماکوں کی آوازیں رات بھر سنائی دیتی رہیں جبکہ جبالیہ میں بھی کئی عمارتیں تباہ ہوئیں۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ جبالیہ میں دوبارہ کارروائی کر رہی ہے تاکہ حماس کی سرنگوں کو ختم کرے اور علاقے پر کنٹرول مضبوط بنائے۔ اسرائیل نے رواں ماہ غزہ سٹی پر قبضے کا منصوبہ منظور کیا ہے۔ اسرائیل غزہ سٹی کو حماس کا آخری مضبوط گڑھ قرار دیتا ہے۔
غزہ سٹی میں تقریباً دس لاکھ افراد مقیم ہیں، جن میں سے کچھ نقل مکانی کر چکے ہیں، تاہم کئی خاندان بمباری کے باوجود گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیر نگرانی کام کرنے والی وزارتِ صحت کے مطابق اتوار کو غذائی قلت اور بھوک سے مزید آٹھ افراد ہلاک گئے ہیں۔
اسرائیل نے دارالحکومت صنعا پر حملہ کیا، حوثی ذرائع
ایران نواز یمنی حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ اسرائیل نے اتوار کے روز دارالحکومت صنعاء پر حملہ کیا، جو ایران کے حمایت یافتہ گروپ کے خلاف اسرائیل تازہ ترین کارروائی ہے۔ یہ جنگجو گروپ غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل پر بارہا میزائل اور ڈرون حملے کرتا رہا ہے۔
حوثیوں کے المصریہ ٹی وی نے دارالحکومت صنعا پر اسرائیلی حملے کی خبر دی لیکن تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ایک حوثی سکیورٹی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ فضائی حملے میں صنعاء کے وسط میں بلدیہ کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اسرائیل نے عالمی ادارہ صحت کا اہلکار رہا کر دیا
عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کہا ہے کہ اس کا ایک اہلکار جسے اسرائیلی فورسز نے غزہ میں 21 جولائی کو حراست میں لیا تھا، چار ہفتے سے زائد عرصے بعد اتوار کو رہا کر دیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ادہانوم گیبرییسس نے ایک بیان میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحت و انسانی ہمدردی کے تمام کارکنوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
جولائی میں ادارے نے بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شہر دیر البلح میں اس کے عملے کی رہائش گاہ اور مرکزی گودام پر حملہ کیا تھا اور اس دوران عملے کے دو افراد اور ان کے اہلِ خانہ کے دو ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں سے تین کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔
جنگ مخالف اسرائیلی شہریوں کے مظاہرے
غزہ پٹی میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے رشتہ داروں نے جنگ بندی اور حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حق میں اسرائیلی وزیروں کے گھروں کے باہر مظاہرے کیے۔
مظاہرین نے کابینہ کے چھ ارکان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا، جن میں وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز اور وزیرِ خارجہ جدعون ساعر کی رہائش گاہیں بھی شامل تھیں۔ منگل کے روز اسرائیل بھر میں ایک اور بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔
گزشتہ پیر کو حماس نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ثالثوں کی نئی جنگ بندی تجویز قبول کر لی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی سابقہ تجویز کا ترمیم شدہ منصوبہ ہے، جس میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے۔ اس دوران ابتدائی طور پر 10 یرغمالیوں کو فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جانا ہے۔
اب بھی غزہ میں مجموعی طور پر 50 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا کہا جا رہا ہے۔
آسٹریلیا میں فلسطینیوں کے حق میں بڑے مظاہرے
اتوار کو ہزاروں آسٹریلوی شہریوں نے فلسطین کے حق میں ریلیوں میں شرکت کی۔ آسٹریلوی حکومت کی جانب سے فلسطین کو بہ طور ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے پر آسٹریلیا اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
فلسطین ایکشن گروپ کے مطابق اتوار کو پورے آسٹریلیا میں 40 سے زائد احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں ریاستی دارالحکومت سڈنی، برسبین اور میلبورن میں بڑے اجتماعات شامل تھے۔ گروپ نے دعویٰ کیا کہ ملک بھر میں تقریباً 3,50,000 افراد نے ریلیوں میں شرکت کی، جن میں صرف برسبین میں تقریباً 50,000 افراد شامل تھے، تاہم پولیس کے مطابق وہاں شرکا کی تعداد دس ہزار کے قریب رہی۔ پولیس کے پاس سڈنی اور میلبورن میں ہجوم کی تعداد کے تخمینے موجود نہیں تھے۔
اسرائیل پر غزہ میں سیز فائر کے لیے بڑھتا دباؤ
غزہ پٹی کے سب سے بڑے شہر غزہ سٹی پر کسی فوجی کارروائی سے باز رکھنے کے لیے اسرائیل پر عالمی دباؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ سٹی پر مکمل قبضے کے لیے عسکری مہم شروع کرنے کا حکم دینے والے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان مہینوں سے جاری بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے ہیں۔
نیتن یاہو کی حکومت کے انتہا پسند دائیں بازو کے اراکین فلسطینی عسکری گروہ حماس کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے سخت مخالف ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دائیں بازو کے وزیرِ خزانہ بیتزالل اسموٹریچ نے یرغمالیوں کے اہلِ خانہ سے کہا کہ اگر نیتن یاہو جنگ بندی پر راضی ہوئے تو وہ حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی اپوزیشن کے سرکردہ رہنما بینی گینٹس نے ہفتے کے روز چھ ماہ کے لیے ایک ’’یرغمالیوں کی رہائی کی حکومت‘‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تاکہ معاہدہ ممکن بنایا جا سکے۔
سابق وزیرِ دفاع گینٹس نے 2024 میں مختلف معاملات پر اختلافات کے باعث نیتن یاہو کی حکومت چھوڑ دی تھی۔
مبصرین کے مطابق یہ امکان کم ہے کہ نیتن یاہو اس تجویز کو قبول کریں، کیونکہ ان کی سیاسی بقاء انتہا پسند دائیں بازو کے اتحادیوں جیسے اسموٹریچ کی حمایت پر منحصر ہے۔