’اسرائیل غزہ میں امداد کا بطور ہتھیار استعمال بند کرے‘
وقت اشاعت 14 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 14 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- سندھ طاس معاہدہ عالمی ثالثی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، بھارت
- ’اسرائیل غزہ میں امداد کا بطور ہتھیار استعمال بند کرے‘
- صدر پوٹن کی یوکرینی تنازعہ حل کرنے کے لیے ’مخلصانہ‘ امریکی کوشش کی تعریف
- بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب، کم از کم 32 افراد ہلاک
- ایرانی جیل پر اسرائیلی حملہ ’بظاہر جنگی جرم‘ تھا، ہیومن رائٹس واچ
- خیبر پختونخوا میں پولیس پر آٹھ حملے، چھ اہلکار ہلاک
- شامی ساحلی علاقوں میں 1,400 ہلاکتیں ممکنہ جنگی جرائم، اقوام متحدہ
سندھ طاس معاہدہ عالمی ثالثی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، بھارت
بھارت نے عالمی ثالثی عدالت کے دائرہ اختیار کو مسترد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے پر اس کے فیصلے کو غیر مؤثر قرار دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے آج بروز جمعرات کہا کہ عالمی ثالثی عدالت کو بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر کوئی قانونی فیصلہ دینے کا اختیار نہیں کیونکہ نئی دہلی نے اس عدالت کی قانونی حیثیت کبھی تسلیم نہیں کی۔
گزشتہ ہفتے عالمی ثالثی عدالت نے پاک بھارت آبی تنازعے سے متعلق ایک سماعت کے نتیجے میں اپنے فیصلے میں پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو مغرب کی جانب پاکستان میں بہنے والے دریاؤں پر نئے پن بجلی گھروں کے ڈیزائن میں سندھ طاس معاہدے کی مکمل پاسداری کرنا ہو گی۔
اسرائیل غزہ میں امداد کا بطور ہتھیار استعمال بند کرے،ایک سو سے زائد غیر منافع بخش اداروں کا انتباہ
ایک سو سے زائد غیر منافع بخش اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے نئے قواعد غزہ پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں امدادی سرگرمیوں کو روک دیں گے اور آزاد اداروں کی جگہ ایسے گروہوں کو دے دی جائے گی، جو اسرائیل کے سیاسی اور عسکری ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
یہ انتباہ اوکسفیم، ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز اور کیئر جیسے امدادی ادروں نے آج بروز جمعرات ایک خط کے ذریعے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مارچ میں متعارف کرائے گئے رجسٹریشن قوانین کے تحت ان اداروں کو اپنے تمام عطیہ دہندگان اور فلسطینی عملے کی فہرستیں اسرائیل کو دینا ہوں گی، جو نہ صرف عملے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ اسرائیل کو وسیع اختیارات دے دے گا کہ کسی بھی ادارے کو اس کے لیے امداد روکنے کی خاطر نشانہ بنایا جا سکے۔
ان امدادی اداروں اور تنظیموں کے مطابق مارچ سے اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد وہ ایک بھی زندگی بچانے والا امدادی ٹرک غزہ نہیں پہنچا سکے۔ یہ ادارے اقوام متحدہ، غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے کیے جانے والے فضائی امدادی آپریشنز اور مئی سے قائم اسرائیل و امریکا کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے فراہم کی جانے والی امداد کے علاوہ اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔
ادھر ہسپتال حکام نے اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید ہلاکتوں اور غذائیت کی شدید کمی سے بڑھتی ہوئی فلسطینی اموات کی اطلاع دی ہے۔ انسانی بحران اور امدادی پابندیوں پر کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اقدامات میں انہیں بھی اہم وجہ قرار دیا ہے۔
’فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کرنے کا طریقہ‘
اسی دوران اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے آگے بڑھائے ہیں، جنہیں ایک سخت گیر وزیر نے ’’فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کرنے کا طریقہ‘‘ قرار دیا ہے۔
دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموٹریچ نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں ایک طویل عرصے سے رکا ہوا ایک بستی کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے، جو اس علاقے کو تقسیم کر کے مشرقی یروشلم سے کاٹ دے گا۔
فلسطینی حکومت، اتحادی ممالک اور انسانی حقوق کی مہم چلانے والے گروہوں نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس علاقے کی مزید تقسیم کسی بھی بین الاقوامی حمایت یافتہ امن منصوبے کو تباہ کر دے گی۔
جمعرات کو ماعالی ادومیم میں مجوزہ بستی کے مقام پر کھڑے ہو کر اسموٹریچ نے کہا کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ای ون ڈویلپمنٹ منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے، اگرچہ اس کی فوری تصدیق دونوں رہنماؤں کی جانب سے نہیں کی گئی۔
اسموٹریچ نے کہا، ’’جو بھی آج دنیا میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمارا جواب اسے زمین پر ملے گا۔ نہ دستاویزات سے، نہ فیصلوں یا بیانات سے، بلکہ حقائق سے۔ گھروں کے حقائق، محلوں کے حقائق۔‘‘
صدر پوٹن کی یوکرینی تنازعہ حل کرنے کے لیے ’مخلصانہ‘ امریکی کوشش کی تعریف
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات کے روز کہا کہ امریکی انتظامیہ یوکرینی تنازعے کے حل کے لیے ’’مخلصانہ کوشش‘‘ کر رہی ہے اور اشارہ دیا کہ ماسکو اور واشنگٹن جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کے حوالے سے کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔
کریملن میں روس کے اعلیٰ فوجی اور سول حکام کے ساتھ ایک ملاقات میں صدر پوٹن نے بتایا کہ وہ حاضرین کو امریکا کے ساتھ یوکرین سے متعلق ہونے والے مذاکرات اور کییف کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کی صورت حال سے آگاہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میں آپ کو موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ معاملات کی اس سطح کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو، جیسا کہ سب جانتے ہیں، میری رائے میں لڑائی روکنے، بحران ختم کرنے اور تمام فریقوں کے مفاد میں معاہدوں تک پہنچنے کے لیے خاصی متحرک ہے اور مخلصانہ کوشش کر رہی ہے۔‘‘
ولادیمیر پوٹن کے مطابق امریکا کے ساتھ بات چیت کا مقصد ’’ہمارے ممالک، یورپ اور پوری دنیا میں دیرپا امن کی شرائط پیدا کرنا‘‘ ہے، بشرطیکہ آئندہ مراحل میں ’اسٹریٹیجک اوفینسو آرمز کنٹرول‘ کے شعبے میں معاہدے طے پا جائیں۔
صدر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کل جمعہ 15 اگست کو الاسکا میں ایک سربراہی ملاقات ہو رہی ہے۔ روس اور امریکہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخائر رکھتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کا آخری باقی رہ جانے والا معاہدہ ’نیو اسٹارٹ‘ ہے، جو 5 فروری 2026 کو ختم ہو جائے گا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب، کم از کم 32 افراد ہلاک
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ایک دورافتادہ پہاڑی گاؤں میں طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے اچانک سیلاب میں کم از کم 32 افراد ہلاک جبکہ درجنوں لاپتا ہو گئے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے کے ایک عہدیدار محمد ارشاد نے کہا کہ امدادی ٹیموں نے ہمالیہ کے گاؤں چوسیتی میں کم از کم 100 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا ہے، جب کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق کم از کم 50 افراد تاحال لاپتا ہیں۔
بھارت کے نائب وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی جتندر سنگھ کے مطابق یہ سیلاب جموں و کشمیر کے علاقے چوسیتی میں ’کلاؤڈ برسٹ‘ یا ’اچانک بادل پھٹنے‘ سے آیا، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر ’’بھاری جانی نقصان‘‘ ہو سکتا ہے۔
چوسیتی ضلع کشتواڑ کا ایک دور دراز ہمالیائی گاؤں ہے اور سالانہ ہندو یاترا کے راستے پر گاڑی سے پہنچا جانے والا آخری مقام ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یاترا معطل کر دی گئی ہے اور مزید امدادی ٹیمیں علاقے کی جانب روانہ ہیں۔
حکام کے مطابق اس آفت سے یاتریوں کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ایرانی جیل پر اسرائیلی حملہ ’بظاہر جنگی جرم‘ تھا، ہیومن رائٹس واچ
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کیبدنام زمانہ اوین جیل پر فضائی حملہ کر کے ’’بظاہر جنگی جرم‘‘ کا ارتکاب کیا۔ اس تنظیم نے آج بروز جمعرات جاری کردہ ایک بیان میں تہران حکومت پر بھی حملے کے بعد قیدیوں کو نقصان پہنچانے اور لاپتہ کر دینے کا الزام لگایا۔
اس جیل پر یہ حملہ 23 جون کو اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کے دوران کیا گیا تھا، جس میں جیل کے جنوبی اور شمالی داخلی دروازوں سمیت طبی سہولتوں اور قیدیوں کے وارڈز کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا تھا، جب قیدیوں کی ان کے عزیز و اقارب سے ملاقاتوں کا وقت جاری تھا۔
ایرانی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر کم از کم 71 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں قیدی، ان کے رشتہ دار اور جیل کا عملہ بھی شامل تھے۔ بعد میں یہ تعداد 80 بتائی گئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ اسرائیل نے اس جیل کو کیوں نشانہ بنایا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ’’غیر قانونی اور بلا امتیاز‘‘ تھا، اور ایسے کوئی ثبوت موجود نہیں کہ حملے سے پہلے وہاں کوئی فوجی ہدف موجود تھا یا کوئی پیشگی وارننگ دی گئی تھی۔ اس تنظیم کے مطابق اوین جیل میں عموماﹰ 1,500 سے زائد قیدی رکھے جاتے ہیں۔
اس تنظیم نے مزید کہا کہ حملے کے بعد قیدیوں کو جیل سے نکالتے اور واپس لاتے وقت انہیں ’’تشدد اور بدسلوکی‘‘ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ایران میں عام تعطیل کے باعث حکام نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، جبکہ اسرائیلی فوج نے بھی ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں پولیس پر آٹھ حملے، چھ اہلکار ہلاک
پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب پولیس پر آتشیں ہتھیاروں اور دستی بموں سے آٹھ مسلح حملے کیے گئے، جن میں چھ اہلکار ہلاک اور نو دیگر زخمی ہوگئے۔
صوبائی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر محمد علی باباخیل کے مطابق یہ حملے صوبے کے سات مختلف اضلاع میں پولیس تھانوں اور ناکوں پر یا دوران گشت کیے گئے، جن میں بعض مقامات پر تو راکٹ لانچر بھی استعمال ہوئے۔ یہ حملے ایسے وقت کیے گئے، جب آج جمعرات کے روز تقریباﹰ 24 کروڑ کی آبادی والا یہ جنوبی ایشائی ملک اپنا 79واں یوم آزادی منا رہا ہے۔
کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائیاں اس کی پولیس کے خلاف جاری مہم کا حصہ تھیں۔ ٹی ٹی پی ایک ایسی تنظیم ہے، جو کئی سنی عسکری گروہوں پر مشتمل ہے اور 2007 سے ریاست کے خلاف برسرپیکار ہے، جس کا مقصد اپنی ہی سوچ کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔
2022 کے اواخر میں پاکستانی طالبان کی طرف سے جنگ بندی ختم کیے جانے کے بعد سے ملک میں ایسے شدت پسند حملوں میں تیزی آ چکی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں 335 حملے ہوئے، جن میں 520 افراد مارے گئے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان میں تربیت حاصل کرتے اور منصوبہ بندی کرتے ہیں، تاہم کابل کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔
شام میں مارچ میں قتل عام ’ممکنہ جنگی جرائم،‘ اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے شام کے لیے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال مارچ میں شام کے ساحلی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران عبوری حکومت کے اہلکاروں اور سابق حکمرانوں کے وفادار جنگجوؤں، دونوں ہی کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس پرتشدد لہر میں زیادہ تر علوی برادری کو نشانہ بنایا گیا اور تقریباً 1,400 افراد، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، ہلاک ہوئے۔ اس تشدد کے بعد بھی وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔
یہ واقعات گزشتہ سال صدر بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد شام میں پیش آنے والا سب سے خونریز سانحہ تھے۔ اس کے بعد عبوری حکومت نے حقائق کے تعین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر