اخوان المسلمون پر ایک مرتبہ پھر پابندی عائد
24 ستمبر 2013مصری عدالت کی طرف سے پیر کو سنائے جانے والے اس فیصلے کو اسلام پسند تنظیم اخوان المسلون کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ بائیں بازو کی پارٹی التجمع سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں تشدد سے بچنے کے لیے اخوان المسلون کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔
پیر کے دن اس مقدمے کی حمتی سماعت کے موقع پر جج محمد الاسید نے حکم نامہ سناتے ہوئے کہا، ’’عدالت اخوان المسلمون، اس کے غیر سرکاری ادارے اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتی ہے جو اس تنظیم سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ادارہ کرتا ہو۔‘‘ انہوں نے یہ فیصلہ بھی سنایا کہ حکومت اخوان المسلمون کے اثاثے منجمد کر دے۔ تاہم اس حکم نامے میں اس اسلام پسند تنظیم کے سیاسی ونگ ’’جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی‘‘ کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ تاہم سرکاری نیوز ایجنسی نے جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی کے ترجمان حمزہ زوابا کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
ادھر واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی نے مصر میں ہونے والی اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اس فیصلے پر عمدرآمد کس طرح کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر باراک اوباما کی انتظامیہ اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
تین جولائی کو ملکی فوج کی طرف سے محمد مرسی کو اقتدار سے الگ کر دیے جانے کے بعد سے ہی اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران اس تنظیم کے سینکڑوں کارکن ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ گرفتار شدگان میں اس اسلام پسند تنظیم کے متعدد نمایاں رہنما بھی شامل ہیں۔
ناقدین کے بقول عدالت کے اس فیصلے کے نتیجے میں ایسے خدشات موجود ہیں کہ اخوان المسلمون کے کچھ ارایکن پُر امن مزاحمت ترک کرتے ہوئے مسلح کارراوئیوں پر بھی اتر سکتے ہیں۔ تاہم اس تنظیم کے ایک سنیئر ممبر محمد علی نے روئٹرز کو بتایا ہے، ’’اس طرح کے اقدامات ہماری پر امن جدوجہد کو نہیں روک سکتے ہیں۔‘‘
1928ء میں قیام میں آنے والی اخوان المسلمون کو 1954ء میں فوجی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم اس تنظیم نے اپنے سماجی کاموں کا سلسلہ جاری رکھا۔ عوامی انقلاب کے نتیجے میں جب حسنی مبارک صدرات کے عہدے سے الگ ہونے پر مجبور ہوئے تو اس تنظیم کو بطور غیر سرکاری ادارے کے طور پر رجسٹر کرا لیا گیا اور 2011 ء میں ہی اسی تنظیم نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے اپنا سیاسی دھڑا بھی بنا لیا۔ اس سیاسی پارٹی نے ملکی انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی اور اس کے رہنما محمد مرسی صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے۔