آنگ سان سوچی یورپ کے تاریخی دورے پر
13 جون 2012اس سے قبل آنگ سان سوچی ملک چھوڑنے کی ہمت نہ کر پائیں، کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ غالبا انہیں ملکی فوجی قیادت واپس نہ لوٹنے دے۔ اسی وجہ سے سوچی اپنے بیٹے سے ملاقات کرنے نہ آ پائیں ۔ سوچی برطانوی شہریت کے حامل اپنے شوہر کی سرطان کے مرض کی وجہ سے سن 1999 میں موت کے موقع پر بھی یورپ نہ آئیں تھیں۔
تاہم گزشتہ برس برسراقتدار آنے والے صدر تھین سین نے ملک میں واضح اور تیز رفتار اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ انہی اصلاحات کے بعد آنگ سان سوچی کی جماعت نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ انہیں انتخابات میں سوچی بھی ملکی قومی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئی ہیں۔ آنگ سان سوچی کو سن 1991ء میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا تھا تاہم اس وقت وہ نظربند تھیں۔
اپنے اس دورہ یورپ میں سوچی سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ جائیں گی۔ اس کے بعد وہ ناروے، آئرلینڈ، برطانیہ اور پھر فرانس پہنچیں گی۔ سوچی ناورے میں اپنا نوبل امن انعام بھی حاصل کریں گی اور وہاں تقریب سے خطاب کریں گی۔
اس دورے میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کانفرنس سے خطاب کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بھی تقریر کریں گی۔ اس کے علاوہ وہ آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا انسانی حقوق کا انعام بھی حاصل کریں گی۔
آنگ سان سوچی کے دورہ یورپ کو میانمار میں مثبت تبدیلیوں کی ایک علامت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جہاں کئی دہائیوں تک فوجی حکمرانوں کی آمریت رہی۔ تاہم گزشتہ برس پہلی مرتبہ فوج کی حمایت یافتہ سابق فوجی جرنیلوں پر مبنی جماعت نے کئی دہائیوں بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں فتح حاصل کی، تاہم اقتدار حاصل کرنے کے بعد صدر تھین سین نے ملک میں غیر متوقع اور ڈرامائی اصلاحات کرتے ہوئے سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ سوچی کی جمہوریت پسند جماعت نے ان اصلاحات کا خیرمقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ آنگ سان سوچی میانمار کی آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سان کی صاحبزادی ہیں۔