آسٹریلیا ’مشتبہ نازی‘ کو ہنگری کے حوالے نہیں کرے گا
15 اگست 2012وہ دوسری عالمی جنگ کے عرصے میں ہنگری کی فوج کے ان تین ارکان میں سے ایک ہے، جن پر ایک نوجوان یہودی کو بڈاپیسٹ میں تشدد کے بعد قتل کرنے کا الزام ہے۔ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے نومبر 1944ء میں یہودی لڑکے Peter Balazs کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس کی لاش دریا میں پھینک دی۔
انہوں نے اسے اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کیونکہ اس وقت وہ اپنے کپڑوں پر ڈیوڈ کا ییلو اسٹار نہیں لگائے ہوئے تھا۔ ہنگری کی فوج اس وقت جرمنوں کی اتحادی تھی۔
چارلس زینٹائی آسٹریلیا کا شہری ہے اور وہ شروع سے ہی اس الزام سے انکار کر رہا ہے۔ اس کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس وقت وہ نازیوں کے زیر قبضہ بڈاپیسٹ چھوڑ چکا تھا اس لیے وہ قتل کی واردات میں ملوث نہیں ہو سکتا۔
ہنگری کی حکومت نے 2005ء میں آسٹریلیا سے درخواست کی تھی کہ زینٹائی کو الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ان کے حوالے کیا جائے۔ 2009ء میں کینبرا حکومت زینٹائی کو الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ہنگری بھیجنے پر رضامند ہو گئی تھی۔
تاہم اس نے کینبرا حکومت کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا اور وفاقی عدالت نے اس کی ملک بدری رکوا دی تھی۔
حکومت نے مقدمے کو آگے بڑھاتے ہوئے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت زینٹائی کے خاندان کے افراد نے درخواست کی تھی کہ اسے ہنگری بھیجنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ وہ بزرگ ہے اور بیمار بھی۔
گزشتہ برس کے آخر میں حکومت کو ہائی کورٹ میں اپیل کی اجازت ملی تھی، جو اعلیٰ عدالتی اتھارٹی ہے۔
حکومت کا اب کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے ملک بدری سے متعلق آسٹریلیا کے معاہدے کی تشریح واضح طور پر ہوئی ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر برائے داخلہ امور جیسن کلیئر نے تصدیق کی ہے کہ یہ فیصلہ حتمی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’ہائی کورٹ کے فیصلے کا اثر یہ ہے کہ زینٹائی کو ہنگری کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے: ’’زینٹائی کو ملک بدر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے مبینہ مجرمانہ فعل کے وقت ’جنگی جرم‘ کا گناہ ہنگری کے قانون کے تحت نہیں تھا۔‘‘
ng/ah (AFP)